سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ اعمال (وہ ہیں)جن پر ہمیشگی کی جائے اور اگرچہ کم ہی ہوں اور عائشہ رضی اللہ عنہا جب بھی کوئی عمل کرتیں تو اس پر ہمیشگی کرتیں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 81]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: برقم: 5861، 6464، 6465، 6467، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 782، 2818، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24707، والحميدي فى «مسنده» برقم: 173، 183، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4533، والترمذي فى «الشمائل» برقم: 270، 302، 307، والطبراني فى «الكبير» برقم: 528، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 139، 5281، 7634، 8232، 9355 الزهد، ابن مبارك: 468، صحیح مسلم: 6/72، رقم: 216، 218، صحیح بخاري: 1/75، مسند احمد: 6/180، مسند طیالسي: 2/28،29، اللباب،ا لمراغي: 208۔»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کے لیے خوش خبری ہے جس کی عمر لمبی ہوئی اور عمل اچھا ہوا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 82]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 472، جامع ترمذي: 2329۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا عبید بن خالد سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے)دو آدمیوں کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا، ان میں سے ایک شہید کر دیا گیا اور دوسرا اس کے بعد فوت ہوا، ہم نے اس کی نماز جنازہ ادا کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تم نے کیا کہا؟“ انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کے لیے دعا کی: یا اللہ! اس پر رحم فرمانا، الٰہی اس کو اس کے ساتھی کے ساتھ ملا دینا! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اس کی نماز اس کی نماز کے بعد کہاں گئی؟ اور اس کا عمل کہاں گیا؟“ اور میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا روزہ اس کے روزے کے بعد کہاں گیا؟“ ان دونوں کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہے۔“ عمرو بن میمون نے کہا کہ مجھے یہ حدیث پسند ہے،کیوں کہ اس نے میرے لیے سند بیان کی ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 83]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 472، سنن أبي داؤد: 2524۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ قیامت کے دن اپنے (عرش کے)سایے میں جگہ دے گا، جس دن اس کے سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، عادل حکمران اور وہ جوان جس نے اللہ عزوجل کی عبادت میں پرورش پائی اور وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہہ پڑیں اور وہ آدمی، گویا اس کا دل مسجد میں لٹکا ہوا ہے اور وہ دو آدمی جنہوں نے اللہ کے لیے آپس میں محبت کی اور وہ آدمی جسے ایک جاہ و جمال والی عورت نے اپنی طرف بلایا تو اس نے کہا کہ بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں اوروہ آدمی جس نے کوئی صدقہ کیا اور اسے چھپایا، یہاں تک کہ اس کا بائیاں ہاتھ نہیں جانتا کہ دائیں نے کیا کیا۔“[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 84]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6806، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1031، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1737، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 358، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4486، 7338، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5382، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5890، 11798، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2391، 2391 م، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5067، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9796، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 6324، 9131 الزهد، ابن مبارك: 473، صحیح بخاري: 3/227، جامع ترمذي: 7/67، مسند طیالسي: (الساعاتي): 2/56، سنن الکبرٰی بیهقي: 3/65۔»
شعبی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو برسر منبر فرماتے ہوئے سنا: اپنے بے وقوفوں کے ہاتھ پکڑ لو، بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: کچھ لوگ سمندر میں کشتی پر سوار ہوئے، انہوں نے اپنا اپنا حصہ تقسیم کیا اور ہر آدمی اپنے حصے کی جگہ پر پہنچ گیا۔ ان میں سے ایک آدمی نے کلہاڑا پکڑا اور اپنی جگہ سوراخ کرنے لگا، انہوں نے کہا کہ کیا کر رہے ہو؟ وہ بولا: یہ میری جگہ ہے، میں اس میں جو چاہوں کروں،ا گر تو انہوں نے اس کے ہاتھوں کو پکڑ لیا تو نجات پا جائیں گے اور وہ بھی نجات پا لے گا اور اگر انہوں نے اسے چھوڑ دیا تو وہ ڈوب جائے گا اور یہ بھی غرق ہو جائیں گے،لہٰذا اپنے احمقوں کے ہاتھ پکڑ لو،اس سے پہلے کہ تم ہلاک ہو جاؤ۔“[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 85]
عدی بن عدی کندی کہتے ہیں کہ ہمارے ایک آزاد کردہ غلام نے ہمیں بیان کیا کہ اس نے میرے دادا کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ عام لوگوں کو خاص لوگوں کے (برے عمل کی وجہ سے عذاب نہیں دیتا، یہاں تک کہ وہ برائی کو اپنے درمیان دیکھ لیں اور وہ اسے روکنے کی طاقت بھی رکھتے ہوں، لیکن اسے نہ روکیں، جب وہ ایسا کرتے ہیں تو اللہ خاص لوگوں کی وجہ سے عام لوگوں کو بھی عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 86]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 476، مسند أحمد: 17720، سلسلة الضعیفة: 3110۔ شیخ شعیب نے اسے ’’حسن لغیرہ‘‘ قرار دیا ہے۔»
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدمیں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مجلسیں دیکھیں، ان میں سے ایک اللہ سے دعا اور اس کی طرف رغبت کر رہے تھے اور دوسرے دین کی سمجھ بوجھ سیکھ رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دونوں مجلسیں خیر پر ہیں اور ان میں سے ایک دوسری سے زیادہ فضیلت والی ہے، رہے یہ لوگ تو اللہ سے دعا اور اس کی طرف رغبت کر رہے ہیں،ا گروہ چاہے تو انہیں عطا فرما دے اور اگر چاہے تو انہیں نہ دے اور لیکن یہ لوگ سیکھ رہے اور جاہل کو تعلیم دے رہے ہیں اورمجھے بھی بس معلم بنا کر بھیجا گیا ہے، لہٰذا یہ لوگ افضل ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 87]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 488، سنن ابن ماجة: 229، سلسلة الضعیفة: 11۔»
علقمہ بن وقاص بیان کرتے ہیں کہ بے شک سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا؛ یقینا میں تجھے دیکھتا ہوں کہ تو ان امراء کے پاس داخل ہوتے ہو اور انہیں ڈھانپتے ہو سو دیکھو کہ کس چیز کے ساتھ تم ان کے پاس حاضر ہوتے ہو، بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”یقینا آدمی خیر کا کوئی ایسا کلمہ بولتا ہے کہ وہ اس کی انتہا کو نہیں جانتا، اللہ اس وجہ سے اس کے لیے اس دن تک جب اس سے ملاقات کرے گا اپنی رضامندی لکھ دیتا ہے اور بے شک آدمی کوئی ایسی بری بات کرتا ہے کہ وہ اس کی انتہاء کو نہیں جانتا تو اس وجہ سے اللہ اس کے لیے،ا س دن تک جب ا س سے ملاقات کے گا، اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے۔“ علقمہ کہا کرتے تھے کہ کتنی ہی حدیثیں جو میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے سنیں وہ میرے اور اس کے درمیان حائل ہو گئیں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 88]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 490، جامع ترمذي: 2319، صحیح ابن حبان: 1/294، 298، الموارد،هیثمي: 379۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سیدہ ام عمارہ بنت کعب رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کھانا پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: کھاؤ، میں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں۔ فرمایا: بے شک روزے دار کے پاس جب کھانا کھایا جائے، تو فرشتے اس کے لیے رحمت و بخشش کی دعا کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوجائے۔“ یا فرمایا: ”یہاں تک کہ وہ اپنا کھانا ختم کر دیں۔“[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 89]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 500، سنن ابن ماجة: 1748، صحیح ابن حبان: (المورد)(237، مسند دارمي: 1/349، طبقات ابن سعد: 4/415، 416، حلیة الأولیاء، ابونعیم: 2/65، المطالب العالیه، ابن حجر: 2/310، سلسلة الضعیفة: 1332۔»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: اگر تم میں سے کوئی ایک اپنے اوپر اللہ کی نعمت کی قدر معلوم کرنا چاہے تو اس کی طرف دیکھے جو اس سے نیچے ہے اور اس کی طرف نہ دیکھے جو اس سے اوپر ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 90]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 502، صحیح مسلم: 1748 بمعناہ۔»