سائب بن یزید نے بیان کیا کہ بے شک شریح حضرمی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایسا آدمی ہے جوقرآن کو تکیہ نہیں بناتا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 61]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 426، مسند احمد: 426، ابن سعد: 3/363، سنن نسائي: 1783۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح الإسناد‘‘ قرار دیا ہے۔»
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات میں ایک گھڑی ہے، جو مسلمان بندہ بھی خیر و بھلائی کا سوال کرتے ہوئے اسے پا لیتا ہے، اسے ضرور عطا کیا جاتا ہے، اور وہ (گھڑی)ہر رات ہوتی ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 62]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 757، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2561، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14578، 14768، 14974، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1911، 2281، والطبراني فى «الصغير» برقم: 848 الزهد، ابن مبارك: 428، 4/449، صحیح مسلم: 5/36 (166،167)، مسند احمد: 3/313، 331، 348۔»
ابومسلم نے کہا کہ میں نے سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ رات کا کون سا قیام افضل ہے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا، جیسا کہ تو نے مجھ سے پوچھا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کا نصف کا درمیان۔ عوف (راوی)کو شک ہے اور اسے کرنے والے کم ہیں۔“[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 63]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 428، مسند احمد: 21555، صحیح ابن حبان (الموارد): 169۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح لغیرہ‘‘ قرار دیا ہے۔»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اپنی امت پر مشقت نہ سمجھتا تو ہر وضو کے وقت مسواک کاضرور انہیں حکم دیتا اور عشاء کی نماز کو نصف رات یا تہائی رات تک موخر کرتا۔ بات یہ ہے کہ جب نصف رات یا رات کا تہائی حصہ گزر جاتا ہے۔ تو (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے)اللہ عزوجل کے نزول کا ذکر فرمایا (اور کہا کہ)وہ فرماتا ہے ”کون ہے جومجھے پکارے میں اس کی دعا قبول کروں گا۔“ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کروں گا کون ہے جو مجھ اسے استغفار کرے، میں اسے بخشش دوں گا، یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے۔“[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 64]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 159، 160، 164، 1934، 6433، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 226، 226، 227، 229، 230، 231، 232، 245، ومالك فى «الموطأ» برقم: 58، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2، 3، 151، 152، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 360، 1041، 1043، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 84، 85، 116، 145، 146، 855، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 91، 103، 173، 174، 175، 931، وأبو داود فى «سننه» برقم: 106، 108، 110، والترمذي فى «جامعه» برقم: 31، والدارمي فى «مسنده» برقم: 720، 731، 735، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 285، 285 م، 413، 430، 435، 459، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 214، 217، 218، والدارقطني فى «سننه» برقم: 271، 283، وأحمد فى «مسنده» برقم: 407، 410، 411، والحميدي فى «مسنده» برقم: 35، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 302، 3836، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 515، 651، 755 الزهد، ابن مبارك: 437، صحیح مسلم: 3/132 (42)، سنن ابن ماجة: 691، 287، مسند احمد (الفتح الرباني)1/294، مستدرك حاکم: 1/146، مسند دارمي: 1/140، صحیح ابن حبان: 2/288، سنن ابو داؤد: 1/69، سنن الکبریٰ بیهقي: 1/184، 185، تاریخ بغداد: 9/346، موطا مالك:1/133، 134، سنن ترمذي: 1/101۔»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے باوضو ہو کر رات گزاری تو اس کے بدن سے لگے ہوئے کپڑے میں فرشتہ رات بسر کرتا ہے، یہ رات کی جس گھڑی بھی بیدار ہوتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: یا اللہ! اپنے فلاں بندے کو بخش دے، بے شک اس نے باوضو ہو کر رات گزاری ہے۔“[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 65]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 441، صحیح ابن حبان: (الموارد)، سلسة الصحیحة: 2539۔»
سلیمان تیمی رحمہ اللہ نے کہا کہ ایک آدمی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام عبید سے کہا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کے علاوہ کسی نماز کا حکم دیتے تھے؟ کہا: ہاں، مغرب اور عشاء کے درمیان۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 66]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 444، مسند احمد: 23652، مجمع الزوائد، هیثمي: 2/229، اور فرمایا کہ اسے احمد اور طبرانی (کبیر)نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام طرق کا دارومدار ایک آدمی پر ہے جس کا نام نہیں لیا گیا اور احمد کے باقی راوی صحیح کے راوی ہیں۔ شیخ شعیب نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔»
شریح بن ھانی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: نمازوں میں سے، عشاء کی نماز سے زیادہ، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بات چیت میں ہوتے، کسی نمازکو مؤخر کرنے کے زیادہ لائق نہ تھے اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (نماز عشاء)پڑھی اور پھر میرے پاس تشریف لائے تو چار یا چھ رکعتیں ضرور پڑھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین سے کبھی کسی چیز کے ساتھ بچاؤ اختیار نہ کرتے، البتہ مجھے ایک بارش والا دن یقینا یاد ہے، کہ بے شک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے ایک چٹائی بچھا دی یا کوئی اور چیز جس کا (راوی)نے ذکر کیا، یعنی چرمی فرش، گویا کہ میں اس میں سوراخ کو دیکھ رہی ہوں، جس سے پانی نکل رہا ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 67]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 451، مسند احمد: 24305۔ شیخ شعیب نے اسے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔»
سیدنا سعید بن منذر انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں تین راتوں میں قرآن پڑھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو طاقت رکھتا ہے (تو پڑھ لے)۔“ کہا کہ پھر وہ ایسے ہی پڑھا کرتے تھے، یہاں تک کہ فوت ہو گئے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 68]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 452، سلسة الصحیحة: 1512۔»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی میرے پاس سے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ضرور پڑھیں۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 69]
تخریج الحدیث: «الزھد: 454، صحیح ابن حبان (الموارد)176۔ ابن حبان نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی ایک مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لے۔“[مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 70]