1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند عبدالله بن مبارك
متفرق
حدیث نمبر: 31
عَنْ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: " مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّ الأَرْضَ تُطْوَى لَهُ، إِنَّا لَنُجْهِدُ، وَإِنَّهُ لَغَيْرُ مُكْتَرِثٍ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسین کوئی چیز نہیں دیکھی، گویا کہ سورج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں چل رہا ہو اور میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو چلنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تیز ہو، گویا زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لپیٹ دی جاتی ہے، بے شک ہم تھک جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قطعاً دشواری نہ ہوتی۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 31]
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 2/350، 380، الزهد، ابن مبارك: 288، سلسلة الضعیفة: 4213۔»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 32
أنا مَعْمَرٌ، أنا الزُّهْرِيُّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّعْدِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: أَلَمْ أُحَدِّثْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالا، فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعَمَالَةَ لَمْ تَقْبَلْهَا؟ فَقَالَ: أَجَلْ، قَالَ: مَا تُرِيدُ إِلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: أَنَا غَنِيٌّ، لِي أَفْرَاسٌ، وَلِي أَعْبُدٌ، وَأُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ، قَالَ عُمَرُ: لا تَفْعَلْ، فَإِنِّي قَدْ كُنْتُ أَفْعَلُ مَا تَفْعَلُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَعْطَانِي الْعَطَاءَ، قُلْتُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ: " خُذْهُ فَإِمَّا تَمَوَّلُهُ وَإِمَّا تَصَدَّقُ بِهِ، وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ لَهُ غَيْرُ مُشْرِفٍ، وَلا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَإِلا فَلا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ".
سیدنا عبداللہ بن سعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا مجھے بیان نہیں کیا گیا کہ تو (بہ طور گورنر)لوگوں کے کاموں میں سے کئی کام سرانجام دیتا ہے، پھر جب تجھے اجرت دی جاتی ہے تو اسے قبول نہیں کرتا؟ اس نے کہا کہ ہاں فرمایا کہ اس سے تیرا کیا ارادہ ہے؟ کہا: میں مال دار ہوں، میرے پاس گھوڑے اور کئی غلام ہیں اور میں ارادہ رکھتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسے نہ کر، بے شک میں بھی ایسے کرتا تھا، جس طرح تو کر رہا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے اجرت دی تو میں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اسے دے دیں جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے پکڑ، یا تو اسے اپنا مال بنا لے، یا صدقہ کر دے اور تیر ے پاس اس مال میں سے جو بھی آئے اور تو اس کا طمع و لالچ رکھنے والا نہ ہو، نہ ہی مانگنے والا ہو تو اسے لے لو اور جو ایسا نہ ہو تو اس کے پیچھے اپنے نفس کو مت لگانا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 32]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1473، 7163، 7164، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1045، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1843، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2364، 2365، 2366، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3405، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2603، 2604، 2605، 2606، 2607، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2396، 2397، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1647، 2944، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1687، 1688، 1689، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7982، 12165، وأحمد فى «مسنده» برقم: 101، 138، والحميدي فى «مسنده» برقم: 21، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1492
صحیح بخاري: 3/263، 264، صحیح مسلم: 7/304 (110، 111)، مسند احمد (الفتح الرباني): 15/7، سنن الکبریٰ بیهقي: 7/15، 4/198،»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 33
نا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ بِشْرٍ التَّغْلِبِيِّ، قَالَ: كَانَ أَبِي جَلِيسًا لأَبِي الدَّرْدَاءِ بِدِمِشْقَ، وَكَانَ بِدِمِشْقَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الأَنْصَارِ، يُقَالُ لَهُ: ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ، وَكَانَ رَجُلا مُتَوَحِّدًا قَلَّمَا يُجَالِسُ النَّاسَ، إِنَّمَا هُوَ فِي صَلاةٍ، فَإِذَا انْصَرَفَ فَإِنَّمَا هُوَ يُسَبِّحُ وَيُكَبِّرُ وَيُهَلِّلُ حَتَّى يَأْتِيَ أَهْلَهُ، فَمَرَّ بِنَا يَوْمًا وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ: كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلا تَضُرُّكَ؟ فَقَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ قَادِمُونَ عَلَى إِخْوَانِكُمْ، فَأَصْلِحُوا لِبَاسَكُمْ، وَأَصْلِحُوا رِحَالَكُمْ حَتَّى تَكُونُوا شَامَةً فِي النَّاسِ، إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَالتَّفَحُّشَ".
قیس بن بشر تغلبی نے کہا کہ میرا باپ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کا دمشق میں ہم نشین تھا اور دمشق میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک آدمی تھا، جسے ابن حنظلیہ رحمہ اللہ کہا جاتا تھا،وہ تنہائی پسند تھے اور کم ہی لوگوں کے ساتھ مجلس اختیار کیا کرتے تھے، وہ صرف نماز میں ہوتے، جب نماز سے پھرتے تو (ان کا کام(بس سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کہنا ہوتا، یہاں تک کہ اپنے گھر والوں کے پاس آجاتے، ایک دن وہ ہمارے پاس سے گزرے اور ہم ابو درداء رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، انہوں نے سلام کیا تو ان سے ابودردا رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں کوئی بات بتائیں جو ہمیں فائدہ دے اور آپ رضی اللہ عنہ کو نقصان نہ دے۔ کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک تم اپنے بھائیوں پر آنے والے ہو، سو تم اپنے لباس درست رکھو اور اپنی سواریاں درست رکھو، یہاں تک کہ ایسے ہو جاؤ جیسے لوگوں میں بہت نمایاں ہو، بے شک اللہ بے حیائی کو اور بہ تکلف فحاشی کو پسند نہیں کرتا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 33]
تخریج الحدیث: «مستدرك حاکم: 2/91، 4/183، سنن أبي داؤد: 11/146 (4089)، مسند احمد: 4/180، الزهد، ابن مبارك: 292۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 34
عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدًا الْجُرَيْرِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: كُنَّا نَجْلِسُ بِالْكُوفَةِ إِلَى مُحدِّثٍ لَنَا، فَإِذَا تَفَرَّقَ النَّاسُ بَقِيَ رِجَالٌ، مِنْهُمْ رَجُلٌ لا أَسْمَعُ أَحَدًا يَتَكَلَّمُ كَلامَهُ، فَأَحْبَبْتُهُ، وَوَقَعَ مِنْهُ فِي قَلْبِي، فَبَيْنَا أَنَا كَذَلِكَ إِذْ فَقَدْتُهُ، فَقُلْتُ لأَصْحَابِي: ذَاكَ الرَّجُلُ كَذَا وَكَذَا، الَّذِي كَانَ يُجَالِسُنَا، هَلْ يَعْرِفُهُ أَحَدٌ مِنْكُمْ؟ قَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ، ذَاكَ أُوَيْسٌ الْقَرَنِيُّ، فَقُلْتُ: هَلْ تَهْدِينِي إِلَى مَنْزِلِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَنْطَلَقْتُ مَعَهُ حَتَّى صِرْتُ عَلَيْهِ كَحَرْبَةٍ، قَالَ: فَخَرَجَ، فَقُلْتُ: أَيْ أَخِي مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأَتِيَنَا؟ قَالَ: الْعُرْيُ، لَمْ يَكُنْ لِي شَيْءٌ آتِيكُمْ فِيهِ، وَعَلَيَّ بُرْدٌ، فَقُلْتُ لَهُ: الْبَسْ هَذَا الْبُرْدَ، قَالَ: لا تَفْعَلْ، فَإِنِّي إِنْ لَبِسْتُ هَذَا الْبُرْدَ آذَوْنِي، فَلَمْ أَزَلْ بِهِ حَتَّى أَلْبَسَهُ، قَالَ: فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ، فَقَالُوا: مَنْ خَادَعَ عَنْ بُرْدِهِ هَذَا؟ قَالَ: فَجَاءَ فَوَضَعَهُ يَكْتَسِي، قَالَ: فَأَتَيْتُهُمْ، فَقُلْتُ: مَا تُرِيدُونَ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ، قَدْ آذَيْتُمُوهُ، الرَّجُلُ يَلْبَسُ مَرَّةً وَيَعْرَى مَرَّةً أُخْرَى، قَالَ: فَأَخَذْتُهُمْ بِلِسَانِي أَخْذًا شَدِيدًا، قَالَ: وَتَمَرَّدَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ هُوَ الَّذِي يَسْخَرُ بِهِ، فَوَفَدَ أَهْلُ الْكُوفَةِ إِلَى عُمَرَ، وَوَفَدَ ذَاكَ الرَّجُلُ فِيهِمْ، فَقَالَ عُمَرُ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنَ الْقَرَنِيِّينَ؟ فَجَاءَ ذَلِكَ الرَّجُلُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَنَا: " إِنَّهُ يَقْدَمُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ يُقَالُ لَهُ: أُوَيْسٌ الْقَرَنِيُّ، لا يَدَعُ بِالْيَمَنِ غَيْرَ أُمٍّ لَهُ، قَدْ كَانَ بِهِ بَيَاضٌ فَدَعَا اللَّهَ فَأَذْهَبَهُ عَنْهُ، إِلا مَوْضِعَ الدِّينَارِ أَوْ مِثْلَ مَوْضِعِ الدِّرْهَمِ، فَمَنْ لَقِيَهُ مِنْكُمْ فَمُرُوهُ فَلْيَسْتَغْفِرْ لَكُمْ"، قَالَ: فَقَدِمَ عَلَيْنَا هَا هُنَا، فَقُلْتُ: مَا أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا أُوَيْسٌ، قُلْتُ: مَنْ تَرَكْتَ بِالْيَمَنِ؟ قَالَ: أُمٌّ لِي، قُلْتُ: كَانَ بِكَ بَيَاضٌ فَدَعَوْتَ اللَّهَ فَأَذْهَبَهُ عَنْكَ إِلا مَوْضِعَ الدِّينَارِ أَوْ مِثْلَ مَوْضِعِ الدِّرْهَمِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مِثْلِي يَسْتَغْفِرُ لِمِثْلِكَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: أَنْتَ أَخِي، لا تُفَارِقْنِي، قَالَ: فَانْمَلَسَ مِنِّي، فَأُنْبِئْتُ أَنَّهُ قَدِمَ عَلَيْكُمُ الْكُوفَةَ، قَالَ: جَعَلَ الرَّجُلُ يُحَقِّرُهُ عَمَّا يَقُولُ فِيهِ عُمَرُ، فَقُلْتُ: تَقُولُ مَا ذَلِكَ فِينَا، وَلا نَعْرِفُ هَذَا؟ قَالَ عُمَرُ: بَلَى، إِنَّهُ رَجُلٌ كَذَا، فَجَعَلَ يَضَعُ مِنْ أَمْرِهِ، أَيْ يُضْعِفُ مِنْ أَمْرِهِ، فَقَالَ: ذَلِكَ الرَّجُلُ عِنْدَنَا نَسْخَرُ بِهِ، يُقَالُ لَهُ: أُوَيْسٌ، قَالَ: هُوَ هُوَ، أَدْرِكْ وَلا أُرَاكَ تُدْرِكُ، قَالَ: فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَهْلَهُ، فَقَالَ أُوَيْسٌ: مَا كَانَتْ هَذِهِ عَادَتُكَ فَمَا بَدَا لَكَ؟ قَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ، لَقِيَنِي عُمَرُ، قَالَ كَذَا وَكَذَا فَاسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: لا أَسْتَغْفِرُ لَكَ حَتَّى تَجْعَلَ عَلَيْكَ أَلا تَسْخَرَ بِي، وَلا تَذْكُرَ مَا سَمِعْتَ مِنْ عُمَرَ إِلَى أَحَدٍ، قَالَ: لَكَ ذَلِكَ، قَالَ: فَاسْتَغْفَرَ لَهُ، قَالَ أُسَيْرٌ: فَمَا لَبِثْنَا حَتَّى فَشَى حديثهُ بِالْكُوفَةِ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا أَخِي، إِلا أُرَاكَ أَنْتَ الْعَجَبُ، وَكُنَّا لا نَشْعُرُ، قَالَ: مَا كَانَ فِي هَذَا مَا لِتَبْلُغَ فِيهِ إِلَى النَّاسِ، وَمَا يُجْزَى كُلُّ عَبْدٍ إِلا بِعَمَلِهِ، قَالَ: فَلَمَّا فَشَى الْحَدِيثُ هَرَبَ فَذَهَبَ.
اسیربن جابر نے کہا کہ ہم کوفے میں اپنے ایک محدث کے پاس بیٹھا کرتے تھے۔جب لوگ بکھر جاتے تو کچھ آدمی باقی رہ جاتے، ان میں ایک ایسا آدمی تھا جو کسی کی نہ سنتا، بس اپنی بات کرتا، سو میں نے اسے پسند کیا اور اس کی محبت میرے دل میں پیوست ہو گئی۔ میں ایسے ہی تھا کہ اچانک اسے گم پایا تو میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ اس اس طرح کہ ایک آدمی تھا، جو ہمارے ساتھ بیٹھا کرتا تھا، کیا تم میں سے کوئی اسے پہچانتا ہے؟ کہا کہ ہاں، وہ اویس قرنی ہے، میں نے کہا: کیا اس کے گھر کا پتہ بتا سکتے ہو؟ کہا ہاں۔ میں اس کے ساتھ چلا، یہاں تک کہ اس کے حجرے پر جا کر دستک دی۔ کہاکہ وہ نکلا تو میں نے کہا: اے بھائی! تجھے ہمارے پاس آنے سے کس چیز نے روکا؟ اس نے کہا کہ عریانی نے، میرے پاس کوئی چیز (لباس(نہیں ہے، جس میں تمہارے پاس آؤں،میرے پاس ایک چادر ہے، میں نے کہا کہ یہ چادر ہی پہن لو۔ اس نے کہا کہ ایسا نہ کر، بے شک اگر میں نے یہ چادر پہن لی تو وہ مجھے اذیت دیں گے۔ پس میں ہمیشہ اس کے ساتھ (اصرار کرتا(رہا یہاں تک کہ اس نے وہی پہن لی۔ کہا کہ وہ ان پر نکلا تو انہوں نے کہا: اس نے اپنی اس چادر کے ساتھ کسی کو دھوکہ دیا؟ کہا کہ وہ آیا تو اسے اتا ر دیا۔ کہا میں ان کے پاس آیا اور کہا: تم اس آدمی کی طرف کس چیز کا ارادہ کھتے ہو، یقینا تم نے اسے تکلیف دی ہے، وہ ایک مرتبہ کپڑا پہنتا ہے اور دوسری مرتبہ اتارتا ہے؟ کہا کہ میں نے انہیں اپنی زبان کے ساتھ سختی سے پکڑا۔ کہا کہ وہاں اس کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی تھا وہی اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ اہل کوفہ کا وفد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو وہ آدمی بھی ان کے ساتھ وفد میں آیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا یہاں کوئی اہل قرن میں سے ہے؟ تو یہی آدمی آیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: بات یہ ہے کہ تمہارے پاس یمن والوں کا ایک آدمی آئے گا جسے اویس قرنی کہا جائے گا، وہ یمن میں اپنی ماں کے سوا کسی کو نہیں چھوڑ کر آئے گا، اس کو پھلبہری ہوگی، اللہ سے دعا کرے گا، تو اللہ اس کو ختم کر دے گا، سوائے ایک دینار یا درہم کی جگہ کے، تم میں سے جو بھی اسے ملے تو اس سے درخواست کر ے کہ وہ اس کے لیے استغفار کرے۔ (عمر رضی اللہ عنہ نے)کہا کہ وہ ہمارے پاس یہاں آیا تھا، میں نے کہا کہ تو کون ہے؟ کہا: اویس، میں نے کہا: یمن میں کسے چھوڑ کر آئے ہو؟ کہا: اپنی ماں کو۔ میں نے کہا: کیا تجھے پھلبہری تھی، تم نے اللہ سے دعا کی تو اس نے تجھ سے ختم کر دی، سوائے ایک دینار کی جگہ، یا ایک درہم کی جگہ کی مثل کے؟ کہا: ہاں۔ میں نے کہا: میرے لیے استغفار کرو، اس نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! کیا میرے جیسا آپ جیسے کے لیے استغفار کرے؟ کہا: میں نے کہا کہ تو میرا بھائی ہے، تم مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے، کہا کہ وہ میرے پاس سے جلدی چلتے ہوئے چلا گیا، مجھے خبر دی گئی کہ وہ تمہارے پاس کوفے میں آیا ہے۔ کہا کہ وہ آدمی شروع ہوا اور جو کچھ اس کے متعلق عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا اسے اس سے کم تر سمجھنے لگا اور کہنے لگا: وہ شخص ہم میں سے نہیں اور نہ ہی ہم اسے پہچانتے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیوں نہیں، بے شک وہ اس اس طرح کا آدمی ہے، وہ اس کے اوصاف بیان کرنے لگے، اس نے کہا کہ وہ آدمی ہمارے پاس ہے، اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اسے اویس کہتے ہیں۔ کہا کہ وہ وہی ہے، اس نے پا لیا اور میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم اسے پا سکو گے۔ کہا: وہ آدمی آیا تو اپنے گھر جانے سے پہلے اس کے پاس آیا۔ اویس نے کہا کہ یہ تیری عادت نہیں ہے، تیرے لیے کیا ظاہر ہوا؟ اس نے کہا کہ تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں! مجھے عمر رضی اللہ عنہ ملے تھے اور یہ یہ باتیں کی ہیں، تم میرے لیے استغفار کرو، کہا کہ میں تیرے لیے قطعاً استغفار نہ کروں گا، حتی کہ اپنے اوپر فرض کر لو، کہ تم میرا مذاق نہیں اڑاؤ گے، اور جو کچھ عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کسی کے آگے ذکر بھی نہیں کرو گے۔ کہا کہ آپ سے یہ وعدہ رہا۔ کہا کہ اس نے اس کے لیے استغفار کیا۔ اسیر نے کہا کہ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اس کا قصہ کوفے میں پھیل گیا۔ کہا: میں اس کے پاس رہا اور کہا: اے میرے بھائی! میں نہیں سمجھتا کہ تم عجب میں مبتلا ہو اور ہم قطعاً اس کا خیال بھی نہیں رکھتے تھے۔ کہا کہ اس میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ جسے میں لوگوں میں پہنچاتا پھروں، ہر بندے کو اس کے عمل کی جزا ہی ملتی ہے۔ کہا جب بات پھیل گئی تو وہ بھاگا اور چلا گیا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 34]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2542، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3406، 5768، 5769، وأحمد فى «مسنده» برقم: 272، 273، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 212، والبزار فى «مسنده» برقم: 342، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 33010
زیادات الزهد، ابن مبارك: 59، حلیة الأولیاء،ا بو نعیم: 2/89، الزهد، ابن مبارك: 293، صحیح مسلم: 223۔225، طبقات ابن سعد: 6/164۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 35
عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ، أَنْزَلَ مِنْهَا رَحْمَةً وَاحِدَةً بَيْنَ الْجِنِّ، وَالإِنْسِ، وَالْبَهَائِمِ، وَالْهَوَامِّ، فَبِهَا يَتَعَاطَفُونَ وبِهَا يَتَرَاحَمُونَ، وبِهَا تَعْطِفُ الْوُحُوشُ عَلَى أَوْلادِهَا، وَأَخَّرَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ رَحْمَةً يَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیشک اللہ کی سو رحمتیں ہیں، ان میں سے ایک رحمت جنوں، انسانوں، چوپاؤں اور حشرات میں نازل کی ہے، سو اسی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے ہمدردی کرتے اور مہربانی کرتے ہیں اور اسی کے سبب جنگلی جانور اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں اور دوسری ننانوے رحمتیں، وہ قیامت والے دن،ا ن کے ساتھ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 35]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3265، 6000، 6469، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2752، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1833، 1834، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 345، 656، 6147، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 185، 186، 7724، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2589، 3541، 3542، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2827، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4293، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7445، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1163، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 485، 991، 2779، 4711
الزهد، ابن مبارك: 312، 367، صحیح بخاري: 10/334، سنن ابن ماجة: 4293، مسند دارمي: 2/229، مسند احمد (الفتح الرباني): 19/345، تاریخ بغداد: 8/324، مستدرك حاکم: 1/56، 4/348۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 36
عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ جَوْسٍ، قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ الْمَدِينَةِ، فَنَادَانِي شَيْخٌ، فَقَالَ: يَا يَمَانِيُّ، يَا يَمَانِيُّ، تَعَالَهْ، وَمَا أَعْرِفُهُ! فَقَالَ لا تَقُولَنَّ لِرَجُلٍ: وَاللَّهِ لا يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ أَبَدًا، وَلا يُدْخِلُكَ الْجَنَّةَ أَبَدًا، قُلْتُ: وَمَنْ أَنْتَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ؟ فَقَالَ: أَبُو هُرَيْرَةَ، فَقُلْتُ: إِنَّ هَذِهِ الْكَلِمَةَ يَقُولُهَا أَحَدُنَا لِبَعْضِ أَهْلِهِ إِذَا غَضِبَ، أَوْ لِزَوْجَتِهِ، أَوْ لِخَادِمِهِ، قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ رَجُلَيْنِ كَانَا فِي بَنِي إسْرَائِيلَ مُتَحَابَّيْنِ، أَحَدُهُمَا مُجتهِدٌ فِي الْعِبَادَةِ، وَالآخَرُ كَأَنَّهُ يَقُولُ: مُذْنِبٌ، فَجَعَلَ يَقُولُ: أَقْصِرْ، أَقْصِرْ عَمَّا أَنْتَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَيَقُولُ: خَلِّنِي وَرَبِّي حَتَّى وَجَدَهُ يَوْمًا عَلَى ذَنْبٍ اسْتَعْظَمَهُ، قَالَ: أَقْصِرْ، قَالَ: خَلِّنِي وَرَبِّي، أَبُعِثْتَ عَلَيَّ رَقِيبًا؟ قَالَ: وَاللَّهِ لا يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ أَبَدًا، أَوْ لا تَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَبَدًا، قَالَ: فَبَعَثَ اللَّهُ إِلَيْهِمَا مَلَكًا، فَقَبَضَ رُوحَيْهِمَا فَاجْتَمَعَا عِنْدَهُ، فَقَالَ لِلْمُذْنِبِ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِي، وَقَالَ لِلآخَرِ: أَتَسْتَطِيعُ أَنْ تَحْظُرَ عَلَى عَبْدِي رَحْمَتِي؟ قَالَ: لا يَا رَبِّ، قَالَ: اذْهَبُوا بِهِ إِلَى النَّارِ"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَوْبَقَتْ دُنْيَاهُ وَآخِرَتَهُ.
ضمضم بن حوس نے کہا کہ میں مدینہ کی مسجد میں داخل ہوا تو مجھے ایک بزرگ نے آواز دی اور کہا: اے یمامی! اے یمامی! آؤ اور میں اسے پہچانتا نہ تھا۔ اس نے کہا: کسی آدمی کو قطعاً یہ نہ کہنا: اللہ تمہیں کبھی نہیں بخشے گا اور نہ ہی جنت میں داخل کرے گا، میں نے کہا کہ آپ کون ہیں، اللہ آپ پر رحمت کرے؟ تو انہوں نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، میں نے کہا کہ یہ الفاظ ہمارا کوئی ایک جب غصے میں ہوتا ہے تو اپنے بعض گھر والوں سے یا بیوی یا خادم سے کہہ دیتا ہے۔ کہا کہ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: یقینا بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے جو باہم محبت کرتے تھے، ان میں سے ایک عبادت میں محنت کرتا اور دوسرا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ گناہ گار تھا۔ تو وہ کہنے گا: جس حالت پر تم ہو اس سے باز آجاؤ، رک جاؤ، کہا کہ وہ کہتا: مجھے چھوڑ دو، اور میرے رب کو، یہاں تک کہ اس نے ایک دن اسے کسی گناہ میں ملوث پایا، تو اسے برا جانا اور کہا: رک جاؤ۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑ دے اور میرے رب کو، کیا تم مجھ پر نگہبان بنا کر بھیجے گئے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ تجھے کبھی نہیں بخشے گا اور تجھے کبھی جنت میں داخل نہیں کرے گا!فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی طرف ایک فرشتہ بھیجا، اس نے دونوں کی روحیں قبض کیں، پس وہ دونوں اللہ کے پاس اکٹھے ہوئے تو (اللہ نے)گناہ گار سے فرمایا: میری رحمت کے ساتھ جنت میں داخل ہوجا اور دوسرے سے فرمایا: کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ میرے بندے سے میری رحمت کو روک لے؟ اس نے کہا: نہیں، اے رب! فرمایا: اس کو آگ کی طرف لے جاؤ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا اس نے ایسا کلمہ کہا کہ جس نے اس کی دنیا اور آخرت تباہ و برباد کر کے رکھ دی۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 36]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 314، مسند احمد (الفتح الرباني): 19/347، سنن ابي داؤد: 4901۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 37
أنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ الْقُرَظِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَارَةَ مَوْلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، عَنْ حُمْرَانَ مَوْلَى عُثْمَانَ، قَالَ: مَرَّتْ عَلَى عُثْمَانَ فَخَّارَةٌ مِنْ مَاءٍ فَدَعَا بِهِ فَتَوَضَّأَ، فَأَسْبَغَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَالَ: لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا مَا حَدَّثْتُكُمْ بِهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا تَوَضَّأَ عَبْدٌ فَأَسْبَغَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلاةِ إِلا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الصَّلاةِ الأُخْرَى" قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ: وَكُنْتُ إِذَا سَمِعْتُ الْحَدِيثَ مِنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الْتَمَسْتُهُ فِي الْقُرْآنِ، فَالْتَمَسْتُ هَذَا فَوَجَدْتُهُ: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا {1} لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ سورة الفتح آية 1-2، فَعَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ تَتِمَّ عَلَيْهِ النِّعْمَةُ حَتَّى غُفِرَ لَهُ ذُنُوبُهُ، ثُمَّ قَرَأْتُ هَذِهِ الآيَةَ: إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ سورة المائدة آية 6، فَعَرَفْتُ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُتِمَّ عَلَيْهِمُ النِّعْمَةَ حَتَّى غَفَرَ لَهُمْ.
حمران جو کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے، بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے ایک پانی کا کوزہ گزرا، آپ رضی اللہ عنہ نے وہ منگوایا، وضو کیا اور اپنا خوب مکمل وضو کیا، پھر کہا کہ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محض ایک، دویا تین مرتبہ ہی سنا ہوتا تو تمہیں یہ قطعاً بیان نہ کرتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بے شمار مرتبہ)فرماتے ہوئے سنا: جس بندے نے بھی وضو کیا، پس اپنا وضو خوب پورا کیا، پھر نماز کی طرف کھڑا ہوا، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ جو اس کے اور دوسری نماز کے درمیان ہیں، ضرور بخشش دے گا۔ کعب بن محمد نے کہا کہ میں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے حدیث سنتا تو اسے قرآن میں تلاش کرتا، سو میں نے اسے تلاش کیا تو پا لیا۔ ﴿ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا (1) لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ﴾ (الفتح: 1،2)بے شک ہم نے تجھے فتح دی، ایک کھلی فتح، تاکہ اللہ تیرے لیے بخش دے تیرا کوئی گناہ جو پہلے ہوااور جو پیچھے ہوا اور اپنی نعمت مجھ پر پوری کر دی۔ تو میں نے جان لیا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی نعمت پوری نہیں کی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گناہ بخش دیا، پھر میں نے یہ آیت پڑھی: ﴿ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ﴾ (المائدہ: 6)جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو۔ یہاں تک کہ پہنچ گیا۔ ﴿ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ﴾(المائدہ: 6) اور لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور تاکہ وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرے۔ تو میں نے پہچان لیا کہ بے شک اللہ نے ان پر اپنی نعمت پوری نہیں، یہاں تک کہ ان کو بخش دیا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 37]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 316، مسند الطیالسي، ساعاتي: 3/111، 112 (5،6)، مسند احمد (الفتح الرباني): 2/201، مجمع الزوائد،هیثمي: 1/229، صحیح ابن حبان: 2/269۔»

حكم: أسنادہ صحیح

حدیث نمبر: 38
عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الصَّلَوَاتُ كَفَّارَاتٌ لِلْخَطَايَا، الصَّلَوَاتُ كَفَّارَاتٌ لِلْخَطَايَا، فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ سورة هود آية 114".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نمازیں گناہوں کا کفارہ ہیں، نمازیں گناہوں کا کفارہ ہیں اور اگر چاہو تو پڑھ لو: ﴿ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ ﴾ (ھود: 114)بے شک نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں، یہ نصیحت ہے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 38]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 317، صحیح بخاري: 526 بمعناه۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 39
عَنْ عَنْ هِشَامِ بْنِ الْغَازِ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الأَسْقَعِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي فَلْيَظُنَّ بِي مَا شَاءَ".
سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا فرمان ہے کہ میں اپنے بندے کے میرے متعلق گمان کے پاس ہوں، پس وہ میرے بارے میں جو چاہے گمان کر لے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 39]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 318، مسند دارمي: 2/214، مسند احمد: 16016، مستدرك حاکم: 4/420، صحیح ابن حبان، (الموارد(: 184، حلیة الأولیاء، ابو نعیم:9/306۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 40
أَنْبَأَ أَنْبَأَ إِسْمَاعِيلُ الْمَكِّيُّ، يُحَدِّثُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَقَالَ: أَلا أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا يَنْفَعُ مَنْ بَعْدَكَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الصَّلاةُ، يَقُولُ اللَّهُ لِلْمَلائِكَةِ: انْظُرُوا إِلَى صَلاةِ عَبْدِي، فَإِنْ كَانَتْ تَامَّةً كُتِبَتْ تَامَّةً، وَأَنْ كَانَتْ نَاقِصَةً، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِحِلْمِهِ وفضلِ وُدِّهِ عَلَى عَبْدِهِ: انْظُرُوا هَلْ لَهُ تَطَوُّعٌ؟ فَإِنْ كَانَ لَهُ تَطَوُّعٌ أُكْمِلَتْ بِهِ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثُمَّ تُؤْخَذُ الأَعْمَالُ عَلَى ذَلِكُمْ".
صعصعہ بن معاویہ رحمہ اللہ نے بیان کیا میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوملا، انہوں نے فرمایا: تو کس (علاقے)سے ہے؟ میں نے کہا: اہل عراق سے۔ کہا کہ میں تجھے کوئی حدیث نہ بیان کروں جو تیرے بعد والوں کو (بھی)فائدہ دے؟ میں نے کہا کہ کیوں نہیں، فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک سب سے پہلے قیامت والے دن لوگوں سے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے۔ اللہ فرشتوں سے فرمائے گا۔میرے بندے کی نماز کی طرف دیکھو، اگر پوری ہوئی تو پوری لکھ دی جائے گی اور اگر ناقص ہوئی تو اللہ عزوجل اپنے حلم اور فضل سے فرمائے گا، اسے میرے بندے پر لوٹا دو، دیکھو کیا اس کے کوئی نفل ہیں؟ اگر اس کے کوئی نفل ہوئے تو ان کے ساتھ نمازمکمل کر دی جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اعمال اسی (حساب سے)لیے جائیں گے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 40]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 320، مستدرك حاکم: 1/262، سنن ابن ماجة: 1425، 1426۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next