1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند عبدالله بن مبارك
متفرق
حدیث نمبر: 21
عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الأَقْمَرِ، عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ، رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: حَكَيْتُ امْرَأَةً أَوْ رَجُلا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أُحِبُّ أَنِّي حَكَيْتُ أَحَدًا، وَإِنَّ لِي كَذَا وَكَذَا أَعْظَمَ ذَلِكَ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت یا مرد کی نقل اتاری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اور بے شک میرے لیے اتنا اور اتنا ہو، اسے بہت بڑا جانا گیا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 21]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 257، تاریخ بغداد: 13/87، سنن ترمذي: 2503۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 22
عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زَحْرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ دَعَا بِقَمِيصٍ لَهُ جَدِيدٍ فَلَبِسَهُ، فَلا أَحْسَبُهُ بَلَغَ تَرَاقِيَهُ، حَتَّى قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي، وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ثُمَّ قَالَ: أَتَدْرُونَ لِمَ قُلْتُ هَذَا؟ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا بِثِيَابٍ لَهُ جُدُدٍ فَلَبِسَهَا فَلا أَحْسَبُهَا بَلَغَتْ تَرَاقِيَةُ حَتَّى قَالَ مِثْلَ مَا قُلْتُ، ثُمَّ قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَلْبَسُ ثَوْبًا جَدِيدًا، ثُمَّ يَقُولُ مِثْلَ مَا قُلْتُ، ثُمَّ يَعْمِدُ إِلَى سَمَلٍ مِنْ أَخْلاقِهِ الَّتِي وَضَعَ، فَيَكْسُوهُ إِنْسَانًا مِسْكِينًا فَقِيرًا مُسْلِمًا لا يَكْسُوهُ إِلا لِلَّهِ، إِلا كَانَ فِي حِرْزِ اللَّهِ، وَفِي ضَمَانِ اللَّهِ، وَفِي جِوَارِ اللَّهِ، مَا دَامَ عَلَيْهِ مِنْهَا سِلْكٌ وَاحِدٌ حَيًّا وَمَيِّتًا، حَيًّا وَمَيِّتًا، حَيًّا وَمَيِّتًا".
سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی نئی قمیص منگوائی اور زیب تن کی، میرا نہیں خیال کہ وہ ان کی ہنسلیوں تک پہنچی، یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سب تعریف اللہ کے لیے جس نے مجھے وہ (لباس(پہنایا جس کے ساتھ میں اپنی شرم گاہ ڈھانپتا ہوں اور جس کے ساتھ میں اپنی زندگی میں خوب صورتی اختیار کرتا ہوں، پھر کہا: کیا تم جانتے ہو کہ میں نے یہ کیوں کہا؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نئے کپڑے منگوائے، انہیں زیب تن کیا، کہاکہ میں خیال کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسلیوں تک پہنچ گئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی مثل جو میں نے کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو مسلمان بندہ بھی نیا لباس پہنتا ہے پھر اسی کی مثل کہتا ہے جو میں نے کہا، پھر وہ اپنے ان پرانے اور بوسیدہ کپڑوں کی طرف قصد کرتا ہے جنہیں اتار دیا گیا ہے اور کسی مسلمان، فقیر، مسکین انسان کو پہنا دیتا ہے، وہ اسے صرف اللہ کے لیے پہناتا ہے تو لازماً وہ اللہ کی پناہ، ضمانت اور پڑوس میں ہوتا ہے، جب تک کہ اس کے اوپر اس کا ایک دھاگا بھی ہوتا ہے، خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ، زندہ ہو یا مردہ، زندہ ہو یا مردہ۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 22]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 259، مستدرك حاکم: 4/193، ضعیف الجامع الصغیر: 5827۔»

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 23
عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، نا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ عَوْفٍ الْقَارِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، وَنَحْنُ عِنْدَهُ: " طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ، طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ"، فَقِيلَ: وَمَنِ الْغُرَبَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَاسٌ صَالِحُونَ قَلِيلٌ فِي نَاسِ سَوْءٍ كَثِيرٍ، مَنْ يَعْصِيهِمْ أَكْثَرُ مِمَّنْ يُطِيعُهُمْ"، وَكُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا آخَرَ حِينَ طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ:" سَيَأْتِي نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ نُورُهُمْ كَضَوْءِ الشَّمْسِ"، قُلْنَا: وَمَنْ أُولَئِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ يُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، يَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ يُحْشَرُونَ مِنْ أَقْطَارِ الأَرْضِ".
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے: خوش خبری ہے اجنبیوں کے لیے خوش خبری ہے اجنبیوں کے لیے! کہا گیا کہ وہ اجنبی کون ہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تھوڑے نیک لوگ جو زیادہ برے لوگوں میں ہوں گے،ان میں نافرمان، اطاعت شعاروں سے زیادہ ہوں گے۔ اور وہ ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، جب سورج طلوع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب قیامت والے دن میری امت کے کچھ لوگ آئیں گے، ان کانور سورج کی روشنی جیسا ہوگا۔ ہم نے کہاکہ وہ لوگ کون ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہاجر فقراء، جن کے ذریعے ناپسندیدگیوں سے بچا جاتا ہے، ان میں سے کوئی ایک اس عالم میں فوت ہو جاتا ہے کہ اس کی حاجت اس کے دل میں ہوتی ہے، وہ زمین کے اطراف و اکناف سے اکٹھے کیے جائیں گے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 23]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 267، جامع ترمذي: 76/380۔ شیخ شعیب نے اسے ’’حسن لغیرہ‘‘ قرار دیا ہے۔»

حكم: حسن لغیرہ

حدیث نمبر: 24
عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُعَاذَةَ الْعَدَوِيَّةِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ مُسْلِمًا فَوْقَ ثَلاثِ لَيَالٍ، فَإِنَّهُمَا نَاكِبَانِ عَنِ الْحَقِّ مَا دَامَا عَلَى صِرَامِهِمَا، وَأَوَّلُهُمَا فَيْئًا يَكُونُ سَبْقُهُ بِالْفَيْءِ كَفَّارَةً لَهُ، وَإِنْ سَلَّمَ فَلَمْ يُقْبِلْ، وَرَدَّ عَلَيْهِ سَلامَهُ، رَدَّتْ عَلَيْهِ الْمَلائِكَةُ، وَرَدَّ عَلَى الآخَرِ الشَّيْطَانُ، وَإِنْ مَاتَا عَلَى صِرَامِهِمَا لَمْ يَدْخُلا الْجَنَّةَ جَمِيعًا"، أَرَاهُ قَالَ: أَبَدًا.
سیدنا ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا: کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں کہ دوسرے مسلمان کو تین راتوں سے اوپر ناراض ہو کر چھوڑے۔ جب تک وہ دونوں ترک تعلق پر قائم رہیں گے، حق سے ہٹنے والے ہوں گے اور ان دونوں میں سے پہلا لوٹنے والا، اس کا لوٹنے میں سبقت کرنا اس کے لیے (گناہوں کا(کفارہ ہوگا اور اگر یہ صلح کرے اور وہ قبول نہ کرے اور اس کا سلام اسی پر دے مارے تو فرشتے اس کو جواب دیتے ہیں اور دوسرے کو شیطان جواب دیتا ہے اور اگر یہ دونوں اپنے اسی ترک تعلق پر مر جائیں تو دونوں ہی جنت میں داخل نہ ہوں گے۔ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی بھی۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 24]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 271، مسند احمد: 4/20، صحیح ابن حبان (الموارد): 486، الأدب المفرد، بخاري: 189، 191، تاریخ بغداد: 3/336، سلسة الصحیحة: 1246۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 25
عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: بَيْنَا نَحنُ نَقْتَرِئُ إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ كِتَابٌ وَاحِدٌ وَفِيكُمُ الأَخْيَارُ، وَفِيكُمُ الأَحْمَرُ وَالأَسْوَدُ، اقْرَءُوا قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَ أَقْوَامٌ يَقْرَؤُونَ، يُقِيمُونَ حُرُوفَهُ كَمَا يُقَامُ السَّهْمُ، لا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَتَعَجَّلُونَ أَجْرَهُ وَلا يَتَأَجَّلُونَهُ".
سیدنا سہل ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اسی دوران ہم (قرآن)پڑھ رہے تھے کہ اچانک ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب تعریف اللہ کی ہے، کتاب ایک ہے اور تمہارے اندر سرخ اور سیاہ ہے۔ (قرآن)پڑھو، اس سے پہلے کہ ایسی قومیں آئیں جو اسے پڑھیں گی، اس کے حروف کو سیدھا کریں گی جس طرح تیر سیدھا کیا جاتا ہے، وہ ان کی ہنسلیوں سے تجاوز نہیں کرے گا، وہ اس کا اجر جلد طلب کریں گے اور اس میں تاخیر نہیں کریں گے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 25]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 280، صحیح ابن حبان: 2/96، سنن ابي داؤد، کتاب الصلاة، باب ما یجزءٔ الأمی والأعجمي من القراءة، رقم: 830۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 26
عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھین کر قبض نہیں کرتا، لیکن وہ علماء کوقبض کر کے علم قبض کرتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوال پوچھیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، وہ گمراہ ہوں گے اورگمراہ کریں گے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 26]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 100، 7307، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2673، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4571، 6719، 6723، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5876، 5877، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2652، والدارمي فى «مسنده» برقم: 245، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 52، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20411، وأحمد فى «مسنده» برقم: 6622، والحميدي فى «مسنده» برقم: 592، والطبراني فى «الكبير» برقم: 14210، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 55، 988، 2301، 3222
صحیح بخاري: 1/140، صحیح مسلم: 16/222، مسند طیالسي:، مسند احمد (الفتح الرباني): 1/39، الزهد، ابن مبارك: 281، طبراني صغیر: 1/165، مسند قضاعي، (الباب شرح الشهاب(: 197، مشکل الآثار، طحاوي: 1/127، تاریخ بغداد: 3/74، 5/460، 8/368، 10/375، 11/241، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 2/181، 10/25۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 27
عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي رِجَالا تُقْرَضُ شِفَاهُهُمْ بِمَقَارِيضَ مِنْ نَارٍ، فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلاءِ يَا جِبْرِيلُ؟ فَقَالَ: خُطَبَاءُ أُمَّتِكَ الَّذِينَ يَأْمُرونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ، وَيَنْسَوْنَ أَنْفُسَهُمْ، وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلا يَعْقِلُونَ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس رات مجھے سیر کرائی گئی، میں نے دیکھا کہ کچھ مرد ہیں، ان کے ہونٹ قینچیوں سے کاٹ جا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: جبریل علیہ السلام! یہ کون ہیں؟ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ خطیب ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور اپنی جانوں کو بھول جاتے اور وہ کتاب کی تلاوت کرتے کیا پس وہ عقل نہیں کرتے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 27]
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 3/120، 231، 239، صحیح ابن حبان: 1/145، الموارد، الهیثم، (5)،الزهد، ابن مبارك: 282، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 8/44، 172، تاریخ بغداد: 12/47، سلسة الصحیحة: 291۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 28
عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلامٍ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ، يَقُولُ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا الإِثْمُ؟ قَالَ:" مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ فَدَعْهُ"، قَالَ: فَمَا الإِيمَانُ؟ قَالَ:" إِذَا سَاءَتْكَ سَيِّئَتُكَ، وَسَرَّتْكَ حَسَنَتُكَ فَأَنْتَ مُؤْمِنٌ".
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ گناہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تیرے سینے میں کھٹکے اسے چھوڑ دے۔ اس نے کہا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تجھے تیرا گناہ برا لگے اور تجھے تیری نیکی اچھی لگے تو،تو مومن ہے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 28]
تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 384، مسند احمد: 5/251، سلسة الصحیحة: 550، 2230۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 29
عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلانِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ، حَدَّثَنِي فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: " أَلا أُخْبِرُكُمْ بِالْمُؤْمِنِ، مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ، وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ الْخَطَايَا وَالذُّنُوبَ".
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں مومن کے بارے میں خبر نہ دوں؟ لوگ جس سے اپنے مالوں اور جانوں کے بارے میں بے خوف ہوں اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سلامت ہوں اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور مہاجر وہ ہے جو گناہوں اور خطاؤں کو چھوڑ دے۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 29]
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 6/21، 22، سنن ابن ماجة: 3934، جامع ترمذي: 7/379۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 30
عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، سَمِعَهُ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " ثَلاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلاوَةَ الإِيمَانِ: مَنْ أَحَبَّ الْمَرْءَ لا يُحِبُّهُ إِلا لِلَّهِ، وَمَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَمَنْ كَانَ يُقْذَفُ فِي النَّارِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَرْجِعَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ مِنْهُ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں جس میں ہوئیں وہ ان کی وجہ سے ایمان کی مٹھاس پا لے گا، جو کسی آدمی سے محبت کرے، تو اس سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتا ہے اور وہ شخص کہ اسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سوا سب سے زیادہ پسندہوں اور وہ شخص کہ جسے آگ میں پھینکا جانا، کفرمیں لوٹنے سے زیادہ پسند ہو، اس کے بعد کہ اللہ نے اسے اس سے بچالیا۔ [مسند عبدالله بن مبارك/حدیث: 30]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 16، 21، 6041، 6941، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 43، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 237، 238، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5002، 5003، 5004، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2624، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4033، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21125، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12184، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2071، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2813، والطبراني فى «الكبير» برقم: 724، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1149، 4905، والطبراني فى «الصغير» برقم: 728
صحیح بخاري: 1/46، 10/380، صحیح مسلم: 2/14، سنن ابن ماجة: 4033، مسند احمد: 3/103، 114، 172، 174، 230، 248، 275، 288، صحیح ابن حبان: 1/269، طبراني صغیر: 1/258، تاریخ بغداد: 2/199، حلیة الأولیاء، ابو نعیم: 1/27، 2/288، 8/390۔»

حكم: صحیح


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next