سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: میں حضر اور سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا، آپ حضر میں جب ظہر کی نماز پڑھتے تو چار رکعات (فرض) اور ان کے بعد دو رکعات پڑھتے اور جب عصر کی نماز پڑھتے تو (صرف) چار رکعات (فرض ہی) پڑھتے اور ان کے بعد کوئی نماز نہ پڑھتے اور جب مغرب کی نماز پڑھتے تو تین رکعات (فرض) پڑھتے اور ان کے بعد دو رکعات پڑھتے اور جب عشاء کی نماز ادا کرتے تو چار رکعات فرض ادا کرتے اور ان کے بعد دو رکعات پڑھتے تھے۔ اور میں سفر میں آپ کے ساتھ رہا تو آپ جب ظہر کی نماز پڑھتے تو دو رکعات (فرض) پڑھتے اور ان کے بعد (بھی) دو رکعات پڑھتے تھے اور جب عصر کی نماز پڑھتے تو (صرف) دو رکعات پڑھتے، ان کے بعد کوئی نماز نہ پڑھتے اور جب مغرب کی نماز پڑھتے تو تین رکعات (فرض) پڑھتے اور ان کے بعد دو رکعات پڑھتے تھے اورکہا: یہ (نماز مغرب)دن کے وتر ہیں جن کے ساتھ دن ختم ہو جاتا ہے اور رات کا آغاز ہوتا ہے اور جب عشاء کی نما زپڑھتے تو دو رکعات پڑھتے اور ان کے بعد (بھی) دو رکعات پڑھتے تھے۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 1]
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 9/452: رقم الحديث: 5634، ابن خزيمة: 2/244: رقم الحديث: 1254» اس کی سند ضعیف ہے، اس میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہے، اسے امام احمد، مسلم، ابوحاتم اور نسائی نے ضعیف کہا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنبی سے متعلق دریافت کیا جو سونا چاہتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ نماز کے وضو کی طرح وضو کرے (اور سو جائے)۔“ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب (حالت جنابت میں) کھانا تناول کرنا چاہتے تو وضو کر لیتے تھے۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 2]
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 1/254: رقم الحديث: 94، سنن ترمذي: الطهارة: باب فى الوضوء للجنب اذا اراد ان نيام: رقم الحديث: 120» اس کی سند میں عطیہ عوفی اور ابن ابی لیلیٰ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسری اسناد کی بناء پر محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضر اور سفر میں نماز پڑھی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضر میں ظہر کی نماز چار رکعات (فرض) اور ا س کے بعد دو رکعات ادا کیں اور عصر کی نماز کی چار رکعات (فرض) ادا کیں، اس کے بعد کچھ نہیں پڑھا اور مغرب کی نماز تین رکعات (فرض) اور ان کے بعد دو رکعات پڑھیں اور عشاء کی نماز چار رکعات (فرض) اور اس کے بعد دو رکعات ادا کی اور میں نے آپ کے ساتھ سفر میں ظہر کی نماز دو رکعات (فرض) اور اس کے بعد دو رکعات ادا کی اور عصر کی نماز (صرف) دو رکعات ادا کی اور ان کے بعد کچھ نہ پڑھا اور مغرب کی نماز تین رکعات (فرض) اور اس کے بعد دو رکعات (فرض) پڑھی اور یہ نماز دن کی وتر (نماز) ہے۔ سفر اور حضر میں اس میں کمی نہیں ہوتی اور عشاء کی نماز دو رکعات (فرض) اور اس کے بعد دو رکعات پڑھی۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 3]
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 9/452: رقم الحديث: 5634، ابن خزيمة: 2/244: رقم الحديث: 1254» اس کی سند ضعیف ہے، اس میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہے، اسے امام احمد، مسلم، ابوحاتم اور نسائی نے ضعیف کہا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کتا پالا شکار کے کتے یا جانوروں کی رکھوالی کے یا دشمن کوڈرانے والے کتے کے علاوہ تو روزانہ اس کے (نیک) عمل سے دو قیراط کم ہو جاتے ہیں۔“(عبداللہ بن عمر سے) سوال ہوا، ابو عبد الرحمن! ہم تو ایک قیراط سنتے ہیں، تو انہوں نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، میرے کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو قیراط کہہ رہے تھے۔ محمد بن عبد الرحمن، ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: میں نے یہ بات نافع رحمہ اللہ سے ذکر کی تو انہوں نے کہا: میں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، لیکن میں نے کلب مخافة (ڈرانے والے کتے) کے الفاظ ان سے نہیں سنے۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 4]
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: الذبائح والصيد: باب من اقتني كلباً ليس بكلب صيد او ما شية: رقم الحديث: 548، صحيح مسلم، المساقاة: باب الامر بقتل الكلاب: 1574: عن عبد اللّٰه بن دينار عن ابن عمر، مؤطا امام مالك: 2/561: رقم الحديث: 1769: عن نافع عن ابن عمر»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز سے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو دو رکعت ہے اور اگر صبح (کے طلوع ہونے) کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لے۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 5]
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: الصلاة: باب الحلق والجلوس فى المسجد: رقم الحديث: 472، صحيح مسلم: المساجد و مواضع الصلاة: باب صلاة الليل مثنيٰ مثنيٰ والوتر ركعة من اٰخر الليل: رقم الحديث: 749: نافع عن ابن عمر»
عبیدبن جریج سے مروی ہے انہوں نے کہا: عبید میرے باپ کے پاس آئے اور عرض کیا: میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا اور ان سے کچھ کاموں سے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: بیان کریں آپ ہمیشہ میرے پاس کسی مقصد سے ہی آئے ہیں۔ میں نے پوچھا: میں نے آپ کو رکن یمانی اور حجر اسود کے علاوہ کسی اور رکن کو چھوتے نہیں دیکھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی کرتے دیکھا ہے۔ ابن جریج نے کہا: میں نے آپ کو صرف سبتی جوتے ہی پہنے ہوئے دیکھا ہے۔ عاصم نے کہا: سبتی جوتے سے مراد وہ جوتا ہے جو چمڑے کو صاف کرنے اور رنگنے کے بعد جس میں بال نہ ہوں،تیار ہو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے (سبتی جوتے پہنے) دیکھا۔ آپ اس میں وضو کرتے اور اس میں نماز ادا کرتے اور اس کو پسند فرماتے تھے۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 6]
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: الوضو: باب غسل الرجلين فى النعلين: رقم الحديث: 166، 5851، صحيح مسلم: الحج: باب الاهلال من حيث تنبعث الراحلة: رقم الحديث: 1187»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”پھل کو نہ بیچو حتی کہ اس کی صلاحیت (پختگی) ظاہر ہو جائے۔“[مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 7]
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: البيوع: باب بيع المزابنة: رقم الحديث: 2183، صحيح مسلم: البيوع: باب النهي عن بيع الثمار قبل بدو صلاحها: رقم الحديث: 1534: سالم عن ابن عمر»
طاؤس رحمہ اللہ نے سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق بیان کیا (ان سے سوال ہوا) کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی کے گھڑے اور کدو کے برتن (میں نبیذ بنانے) سے منع کیا؟ تو انہوں نے کہا: ہاں۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 8]
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: الاشربة: باب النهي عن الانتباذ فى المزفت … الخ: رقم الحديث: 1997، مسند احمد: 9/95: رقم الحديث: 5072»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ کے پاس ایک نوجوان آیا اور اس نے عرض کیا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں آپ کے قریب ہوجاؤں؟ تو آپ نے فرمایا: ”قریب ہوجاؤ۔“ وہ (اتنا)قریب ہواحتی کہ اس نے اپنی ران آپ کی ران پر رکھ دی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے رسول ہیں۔ اس (نوجوان) نے پوچھا: جب میں یہ کام کروں تو میں مسلمان ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں (تو مسلمان ہے)۔“ اس نے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”تو اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے تو جنت اور جہنم پر ایمان لائے۔ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان لائے اور میزان (کے برحق ہونے) پر ایمان لائے۔“ اس نے عرض کیا: جب میں یہ کام کروں تو میں مومن ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 9]
تخریج الحدیث: «مسند ابو داؤد الطيالسي: 1/24: رقم الحديث: 21، مصنف ابن ابي شيبه: 3/331»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز میں تشہد کی اس طرح تعلیم دیتے جیسے لکھائی سیکھانے والا بچوں کوسکھاتا ہے۔ [مسند عبدالله بن عمر/حدیث: 10]
تخریج الحدیث: «مصنف ابن ابي شيبه: 1/261، مسند ابي يعلي: 9/456: رقم الحديث: 5605» شیخ حسین سلیم اسد نے کہا کہ اس کی سند ضعیف ہے۔