ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا کہا ہم سے ابواسامہ نے برید کے واسطہ سے، انہوں نے ابی بردہ سے انہوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ جو کشتی میں میرے ساتھ (حبشہ سے) آئے تھے ” بقیع بطحان “ میں قیام کیا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف رکھتے تھے۔ ہم میں سے کوئی نہ کوئی عشاء کی نماز میں روزانہ باری مقرر کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ اتفاق سے میں اور میرے ایک ساتھی ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام میں مشغول تھے۔ (کسی ملی معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گفتگو فرما رہے تھے) جس کی وجہ سے نماز میں دیر ہو گئی اور تقریباً آدھی رات گزر گئی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز پڑھائی۔ نماز پوری کر چکے تو حاضرین سے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر وقار کے ساتھ بیٹھے رہو اور ایک خوشخبری سنو۔ تمہارے سوا دنیا میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں جو اس وقت نماز پڑھتا ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تمہارے سوا اس وقت کسی (امت) نے بھی نماز نہیں پڑھی تھی۔ یہ یقین نہیں کہ آپ نے ان دو جملوں میں سے کون سا جملہ کہا تھا۔ پھر راوی نے کہا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ پس ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن کر بہت ہی خوش ہو کر لوٹے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 567]
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا ابوالمنہال سے، انہوں نے ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 568]
ہم سے ایوب بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر نے سلیمان سے، ان سے صالح بن کیسان نے بیان کیا کہ مجھے ابن شہاب نے عروہ سے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عشاء کی نماز میں دیر فرمائی۔ یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ نے پکارا، نماز! عورتیں اور بچے سب سو گئے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین پر تمہارے علاوہ اور کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔ راوی نے کہا، اس وقت یہ نماز (باجماعت) مدینہ کے سوا اور کہیں نہیں پڑھی جاتی تھی۔ صحابہ اس نماز کو شام کی سرخی کے غائب ہونے کے بعد رات کے پہلے تہائی حصہ تک (کسی وقت بھی) پڑھتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 569]
ہم سے محمود نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات کسی کام میں مشغول ہو گئے اور بہت دیر کی۔ ہم (نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے) مسجد ہی میں سو گئے، پھر ہم بیدار ہوئے، پھر ہم سو گئے، پھر ہم بیدار ہوئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ دنیا کا کوئی شخص بھی تمہارے سوا اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔ اگر نیند کا غلبہ نہ ہوتا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما عشاء کو پہلے پڑھنے یا بعد میں پڑھنے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ کبھی نماز عشاء سے پہلے آپ سو بھی لیتے تھے۔ ابن جریج نے کہا میں نے عطاء سے معلوم کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 570]
تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء کی نماز میں دیر کی جس کے نتیجہ میں لوگ (مسجد ہی میں) سو گئے۔ پھر بیدار ہوئے پھر سو گئے ‘ پھر بیدار ہوئے۔ آخر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اٹھے اور پکارا ” نماز “ عطاء نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے تشریف لائے۔ وہ منظر میری نگاہوں کے سامنے ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور آپ ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میری امت کے لیے مشکل نہ ہو جاتی، تو میں انہیں حکم دیتا کہ عشاء کی نماز کو اسی وقت پڑھیں۔ میں نے عطاء سے مزید تحقیق چاہی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سر پر رکھنے کی کیفیت کیا تھی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں اس سلسلے میں کس طرح خبر دی تھی۔ اس پر عطاء نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں تھوڑی سی کھول دیں اور انہیں سر کے ایک کنارے پر رکھا پھر انہیں ملا کر یوں سر پر پھیرنے لگے کہ ان کا انگوٹھا کان کے اس کنارے سے جو چہرے سے قریب ہے اور داڑھی سے جا لگا۔ نہ سستی کی اور نہ جلدی، بلکہ اس طرح کیا اور کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری امت پر مشکل نہ گزرتی تو میں حکم دیتا کہ اس نماز کو اسی وقت پڑھا کریں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 571]
اور ابوبرزہ رضی اللہ عنہ صحابی نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں دیر کرنا پسند فرمایا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: Q572]
ہم سے عبدالرحیم محاربی نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے حمید طویل سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) عشاء کی نماز آدھی رات گئے پڑھی۔ اور فرمایا کہ دوسرے لوگ نماز پڑھ کر سو گئے ہوں گے۔ (یعنی دوسری مساجد میں پڑھنے والے مسلمان) اور تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے (گویا سارے وقت) نماز ہی پڑھتے رہے۔ ابن مریم نے اس میں یہ زیادہ کیا کہ ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی۔ کہا مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے یہ سنا، گویا اس رات آپ کی انگوٹھی کی چمک کا نقشہ اس وقت بھی میری نظروں کے سامنے چمک رہا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 572]
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے اسماعیل سے، کہا ہم سے قیس نے بیان کیا، کہا مجھ سے جریر بن عبداللہ نے بیان کیا، کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بے ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو (اسے دیکھنے میں تم کو کسی قسم کی بھی مزاحمت نہ ہو گی) یا یہ فرمایا کہ تمہیں اس کے دیدار میں مطلق شبہ نہ ہو گا اس لیے اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے (فجر اور عصر) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو۔ (کیونکہ ان ہی کے طفیل دیدار الٰہی نصیب ہو گا یا ان ہی وقتوں میں یہ رویت ملے گی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی «فسبح بحمد ربك قبل طلوع الشمس وقبل غروبها»” پس اپنے رب کے حمد کی تسبیح پڑھ سورج کے نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے۔ “ امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ابن شہاب نے اسماعیل کے واسطہ سے جو قیس سے بواسطہ جریر (راوی ہیں) یہ زیادتی نقل کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم اپنے رب کو صاف دیکھو گے “۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 573]
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا، ابوبکر بن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے اپنے باپ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ٹھنڈے وقت کی دو نمازیں (وقت پر) پڑھیں (فجر اور عصر) تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ابن رجاء نے کہا کہ ہم سے ہمام نے ابوجمرہ سے بیان کیا کہ ابوبکر بن عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ نے انہیں اس حدیث کی خبر دی۔ ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے حبان نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا ابوبکر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پہلی حدیث کی طرح۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 574]
ہم سے عمرو بن عاصم نے یہ حدیث بیان کی، کہا ہم سے ہمام نے یہ حدیث بیان کی قتادہ سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ ان لوگوں نے (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے دریافت کیا کہ ان دونوں کے درمیان کس قدر فاصلہ رہا ہو گا۔ فرمایا کہ جتنا پچاس یا ساٹھ آیت پڑھنے میں صرف ہوتا ہے اتنا فاصلہ تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 575]