سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمان ہونے سے پہلے ایک گھوڑا بطورِ تحفہ پیش کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں مشرکوں کے عطیات پسند نہیں کرتا۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 552]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، أخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 3057، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1577، قال الشيخ الألباني: صحيح، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18860، 18861، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17754، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1178، 1179، والبزار فى «مسنده» برقم: 3494، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 998، 999، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 70، 2524، 7620، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 4 قال الهيثمي: وفيه الصلت بن عبد الرحمن الزبيدي وهو ضعيف، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (4 / 151)»
حكم: إسناده ضعيف
2. سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کی عجز و انکساری کا بیان
روح بن زنباع کہتے ہیں: میں سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اس وقت وہ بیت المقدس کے امیر تھے اور وہ اپنے گھوڑے کے لیے توڑی اور جَو کے چھلکے اتار رہے تھے۔ میں نے کہا: اے امیر صاحب! کیا تمہارا یہ کام کرنے کے لیے تمہیں کوئی آدمی نہیں مل سکا؟ تو وہ کہنے لگے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”جو شخص اپنے گھوڑے کے لیے اللہ کی راہ میں جَو کو صاف کرے، پھر اس کو تیار کر کے اس کے ساتھ لٹکا دے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر جَو کے بدلے ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 553]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 2791، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17229، 17230، والطبراني فى «الكبير» برقم: 1254، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1133، والطبراني فى «الصغير» برقم: 14، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2439»
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ضبّ کی حدیث بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ بنوسلیم کا اعرابی حاضر ہوا، جس نے گوہ کا شکار کر کے اپنی آستین میں اس کو رکھا ہوا تھا، اس کو وہ اپنے سفر میں لے جا رہا تھا، اس نے لوگوں کی ایک جماعت دیکھی تو کہنے لگا: یہ جماعت کس شخص پر ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ میں نبی ہوں، تو وہ اعرابی لوگوں کو چیر کر آگے نکل گیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! عورتیں تجھ سے زیادہ جھوٹے لہجے والی نہیں ہیں، اور تم سے زیادہ بُرا مجھے کوئی نہیں لگتا (نعوذ باللہ)، اگر مجھے میری قوم عجول (عجلت والے) کے نام پر موسوم نہ کرتی تو میں تجھے جلدی سے قتل کر دیتا، اور تیرے قتل سے تمام لوگوں کو خوش کر دیتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے قتل کر دوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تجھے معلوم نہیں کہ حوصلے والا آدمی قریب ہے کہ نبی بن جائے۔“ پھر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: مجھے لات اور عزیٰ کی قسم ہے کہ میں تجھ پر ایمان نہیں لایا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اعرابی! تجھے اس بات پر کس نے آمادہ کیا کہ تو نے یہ بات کہی، اور تو نے ناحق کلام کیا، اور تو نے میری مجلس کی عزت نہیں کی، اور تو اللہ کے رسول کو ہلکا سمجھتے ہوئے کہہ رہا ہے؟“ وہ کہنے لگا: قسم ہے لات اور عزیٰ کی، میں تجھ پر ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ تجھ پر ایمان لائے، تو اس نے گوہ اپنی آستین سے نکال کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈال دی اور کہنے لگا: اگر یہ گوہ آپ پر ایمان لے آئے تو میں بھی آپ پر ایمان لے آؤں گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گوہ!“ تو گوہ نے عربی زبان میں کلام کیا جس کو تمام لوگ سمجھ رہے تھے، کہنے لگی: میں حاضر ہوں، اور پھر حاضر ہوں اے رب العالمین کے رسول! تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کس چیز کی بندگی کرتی ہے؟“ گوہ کہنے لگی کہ میں اس ذات کی بندگی کرتی ہوں جس کا عرش آسمان میں ہے، اور زمین میں اس کی بادشاہی ہے، اور سمندر میں اس کا راستہ ہے، اور جنّت میں اس کی رحمت ہے، اور آگ میں اس کا عذاب ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گوہ! بتا میں کون ہوں؟“ تو وہ کہنے لگی: آپ جہانوں کے رب کے رسول ہیں، اور خاتم النّبیین ہیں، جو آپ کی تصدیق کرے گا وہ کامیاب ہوا اور جس نے آپ کی تکذیب کی وہ ناکام ہوا۔ اعرابی کہنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں، اور آپ اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ کی قسم! جب میں آپ کے پاس آیا تھا تو میرے لیے روئے زمین پر آپ سے بُرا شخص کوئی نہیں تھا، اللہ کی قسم! اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی جان اور اولاد سے بھی زیادہ پیارے ہیں، آپ پر میرے بال، میرا جسم، میرے جان کا اندرون اور میرا بھید اور میری ظاہری باتیں سب آپ پر ایمان لے آئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب تعریف اس اللہ کے لیے جس نے تجھے اس دین کی ہدایت دی، جو بلند ہوتا ہے اور اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ جس کو اللہ تعالیٰ بغیر نماز کے قبول نہیں کرتا، اور نماز کو بغیر قرآن کے قبول نہیں کرتا۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سورۃ فاتحہ اور سورۃ اخلاص سکھا دی۔ تو وہ کہنے لگا: ایسا کلام میں نے کبھی سادہ نثر میں سنا اور نہ نظم میں جو اس سے اچھا ہو۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کلام رب العالمین کا ہے، یہ شعر نہیں ہے۔ اور جب تو نے «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحََدٌ﴾» کو ایک دفعہ پڑھا تو گویا کہ تو نے ایک تہائی قرآن پڑھ لیا، اور جب تو نے سورۃ اخلاص دو دفعہ پڑھ لیا تو گویا کہ دو تہائی قرآن پڑھ لیا، اور جب تو نے «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحََدٌ﴾» تین دفعہ پڑھ لی تو گویا کہ تو نے تمام قرآن مجید پڑھ لیا۔“ اعرابی کہنے لگا: ہمارا معبود بہت اچھا ہے، وہ تھوڑی چیز بھی قبول کرتا ہے اور زیادہ چیز عنایت فرماتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعرابی کو کچھ دے دو۔“ تو انہوں نے اتنا دیا کہ طاقت سے زیادہ لاد دیا، تو سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اُٹھے، کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ایک اونٹنی دینا چاہتا ہوں جو بختی اونٹ سے ذرا کم اور اعرابی سے اوپر ہوگی اور دس ماہ والی ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے تو وہ بیان کیا جو تم دو گے اب میں بیان کرتا ہوں جو کچھ اللہ تعالیٰ تجھ کو دیں گے۔“ انہوں نے کہا: فرمائیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے کشادہ موتی کی اونٹنی جس کے پاؤں سبز زبرجد کے ہوں گے، اس کی گردن زرد زبرجد کی ہوگی، اس پر ہودج ہو گا، اسکے اوپر سندس اور استبرق ہو گا جو تجھے اٹھا کر پل صراط سے اس طرح پار کر دے گی جس طرح اچک کر لے جانے والی بجلی ہوتی ہے۔“ تو وہ اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلا گیا تو اس کو ایک ہزار اعرابی ملے جو ایک ہزار چوپایوں پر سوار تھے، ان کے پاس ایک ہزار نیزے اور ایک ہزار تلواریں تھیں۔ اس نے انہیں پوچھا: تم کہاں جانے کا ارادہ کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم اس جھوٹ کہنے والے سے جنگ کریں گے جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے، تو اس اعرابی نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ انہوں نے کہا: تو بھی بے دین ہوگیا ہے، تو وہ کہنے لگا: میں بے دین نہیں ہوا، پھر اس نے انہیں اپنا تمام واقعہ سنایا تو سب نے کہا: اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ایک چادر میں ملے، تو وہ اپنی سواریوں سے اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چومنے لگے اور کہنے لگے: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰهِ» اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! ہمیں اپنا حکم سنائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم خالد بن ولید کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ۔“ راوی نے کہا: عرب میں اس بنوسلیم قبیلہ کے علاوہ کوئی قبیلہ نہیں جس کے اکٹھے ایک ہزار آدمیوں نے ایمان قبول کیا ہو۔ [معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 554]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 5996، والطبراني فى «الصغير» برقم: 948 قال ابن حجر: وإسناده ضعيف جدا، التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير: (4 / 231)»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنگ ایک دھوکہ ہے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 555]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 2833، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4559، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2216، 4116، والطبراني فى «الصغير» برقم: 23، وله شواهد من حديث أبى هريرة الدوسي، فأما حديث أبى هريرة الدوسي، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3027، 3029، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1740، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8227، 8269، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18521، والبزار فى «مسنده» برقم: 9391»
اسی سند سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنگ دھوکہ ہے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 556]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 2833، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4559، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2216، 4116، والطبراني فى «الصغير» برقم: 23، 69، وله شواهد من حديث أبى هريرة الدوسي، فأما حديث أبى هريرة الدوسي، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3027، 3029، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1740، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8227، 8269، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18521، والبزار فى «مسنده» برقم: 9391»
سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی سریہ بھیجتے تو کہتے:” «بِسْمِ اللّٰهِ وَ بِاللّٰهِ وَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ عَليٰ مِلَّتِ رَسُوْلِ اللّٰهِ» اللہ کے نام سے، اس کی توفیق سے، اس کی راہ میں، اس کے رسول کے مذہب پر جاؤ، نہ خیانت کرو، نہ دھوکہ دو، نہ مثلہ کرو اور نہ بچوں کو قتل کرو۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 557]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه أبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7505، وأورده ابن حجر فى "المطالب العالية"، 1957، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 2304، 2305، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 745، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 115، وله شواهد من حديث أنس بن مالك، وأما حديث أنس بن مالك، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4192، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1671، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4364، والترمذي فى «جامعه» برقم: 72، 73، 1845، 2042، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2578، 3503، والطبراني فى «الصغير» برقم: 258 قال أبو حاتم الرازي: قال أبي ليس لهذا الحديث أصل بالعراق وهو حديث منكر بهذا الإسناد، علل الحديث: (3 / 393)»
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”مشرکین کی ہجو بیان کریں اور جبریل علیہ السلام تیرے ساتھ ہیں۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 558]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3213، 4123، 6153، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2486، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7146، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6115، 6118، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 5980، 8236، 8237، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21166، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18823، والطبراني فى «الكبير» برقم: 3588، 3590، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1209، 3108، والطبراني فى «الصغير» برقم: 119، 994»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس دین کی ایسی قوم یا ایسی اقوام سے امداد لیتا ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 559]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4517، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 8834، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1948، 2737، والطبراني فى «الصغير» برقم: 132، والبزار فى «مسنده» برقم: 6641، 6648، 6776»
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جمرۂ وسطیٰ کے پاس پوچھا گیا: اعمال میں سے کون سا عمل بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات بیان کرنا۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 560]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 4012، قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20242، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22588، 22637، والطبراني فى «الكبير» برقم: 8080، 8081، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1596، 6824، والطبراني فى «الصغير» برقم: 151، فأما حديث أبى سعيد الخدري أخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 4344، قال الشيخ الألباني: صحيح، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2174، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4011»
سیدنا اسلم انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی قریظہ کے قیدیوں پر مقرر فرمایا تو میں لڑکے کی شرمگاہ دیکھتا، اگر اس کے بال اُگ آتے تو میں اس کی گردن اڑا دیتا، اور اس کے بال نہ اُگے ہوتے تو اس کو مسلمانوں کی غنیمتوں میں شامل کر دیتا۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الْجِهَادِ/حدیث: 561]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 1000، 1056، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1585، والطبراني فى «الصغير» برقم: 181، قال ابن حجر: إسناد ضعيف، التلخيص الحبير فى تخريج أحاديث الرافعي الكبير:، وله شواهد من حديث عبد الله بن عباس وحديث عطية القرظي فأما حديث عبد الله بن عباس أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6299، وأما حديث عطية القرظي أخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 4404، قال الشيخ الألباني: صحيح، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1584، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3460، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2541، 2542، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19078»