سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت کے دو پردے ہیں۔“ کسی نے کہا: کون کون سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک قبر ہے اور ایک خاوند۔“ کسی نے کہا: ان میں سے زیادہ کون سا پردہ بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قبر۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ النِّكَاح/حدیث: 493]
تخریج الحدیث: «موضوع، أخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 12657، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 8240، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1078 قال الشيخ الألباني: موضوع، «ضعيف الجامع» برقم: (4750)»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔ [معجم صغير للطبراني/كِتَابُ النِّكَاح/حدیث: 494]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5086، 5159، 5169، 5528، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1365، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 351، 400، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4091، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3344، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2054، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1115، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1957، 2272، 3196، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 907، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1933، 3288، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12138، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 386، 1093»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی مرد کسی مرد اور کوئی عورت کسی عورت سے مباشرت نہ کرے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ النِّكَاح/حدیث: 495]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5582، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7872، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2818، 2918، والبزار فى «مسنده» برقم: 4768، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 17889، والطبراني فى «الكبير» برقم: 11728، 11794، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 8807، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1094 وقال الحاکم: هذا حديث صحيح على شرط البخاري، فقد أجمعا على صحة هذا الحديث .»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنواری اور ایک بیوہ کا نکاح واپس کر دیا جن کا ان کے باپ نے ان کی رضامندی کے بغیر نکاح کر دیا تھا۔ [معجم صغير للطبراني/كِتَابُ النِّكَاح/حدیث: 496]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، أخرجه والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5366، 5368، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2096، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1875، 1875 م، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13786، 13788، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3563، 3564 قال الدارقطنی: تفرد به عبد الملك الدماري وفيه ضعف والصواب عن يحيى بن أبي كثير عن المهاجر بن عكرمة مرسل، فتح الباري شرح صحيح البخاري: (9 / 101)»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک آدمی کی نئی نئی شادی ہوئی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جس میں یہ شخص بھی تھا، جب لوگ واپس آئے تو اس شخص نے اپنے گھر کی طرف جلد آنے کی کوشش کی تو ناگہان اس نے اپنی بیوی کو دروازے پر کھڑی دیکھ لیا، اسے غیرت آئی تو اس نے نیزہ مارنا چاہا، وہ کہنے لگی: جلدی نہ کرو، پہلے گھر کے اندر جا کر دیکھ لو کہ اندر کیا ہے؟ وہ اندر گیا تو اسے بستر پر ایک لیٹا ہوا سانپ نظر آیا، تو اس نے اس کو وہ نیزہ مارا جس سے وہ مر گیا، مگر وہ آدمی خود بھی مر گیا۔ جب یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: ”ان گھروں میں کوئی جن آباد ہیں۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ [معجم صغير للطبراني/كِتَابُ النِّكَاح/حدیث: 497]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه أحمد فى «مسنده» برقم: 6447، والبزار فى «مسنده» برقم: 2238، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 19619، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 2936، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3848، 4528، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1146 [وله شواهد من حديث عبد الله بن عمر بن الخطاب، فأما حديث عبد الله بن عمر بن الخطاب، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3297، 3310، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2233، والحميدي فى «مسنده» برقم: 632، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5493 قال الدارقطنی: محفوظ عن ابن عمر، العلل الواردة في الأحاديث النبوية: (12 / 306)»
حكم: إسناده صحيح
26. خاوند یا بیوی کا علیحدگی پر کسی اور سے نکاح نہ کرنے کی شرط کا بیان
سیدہ ام مبشر انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منگنی کی تو وہ کہنے لگی: میں نے اپنے خاوند سے یہ عہد کیا ہے کہ اس کے بعد کسی سے شادی نہیں کروں گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بات درست نہیں ہے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ النِّكَاح/حدیث: 498]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 1186، 267، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1157 قال ابن حجر: إسناد حسن، فتح الباري شرح صحيح البخاري: (9 / 124)»