سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھوکا اور ضرورت مند ہو اور اپنی ضرورت کو اللہ تک پہنچائے، تو اللہ پر لازم ہو جاتا ہے اس کی ایک سال کی حلال روزی کھول دے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الزَّكوٰة/حدیث: 403]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 2358، والطبراني فى «الصغير» برقم: 214 قال الھیثمی: فيه إسماعيل بن رجاء الحصني ضعفه الدارقطني، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (10 / 256)»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ صدقات کو قبول فرماتا ہے اور ان میں سے صرف پاک صدقات کو قبول فرماتا ہے، اور وہ انہیں اپنے دائیں ہاتھ میں قبول فرماتا ہے، پھر صدقے کے مالک کے لئے اسے پالتا رہتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی اپنی بچھڑی وغیرہ کو پالتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک لقمہ اُحد پہاڑ کی طرح ہو جاتا ہے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الزَّكوٰة/حدیث: 404]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1410، 7430، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1014، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1835، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2425، 2426، 2427، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 270، 3316، 3318، 3319، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3302، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2524، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2316، 7687، والترمذي فى «جامعه» برقم: 661، 662، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1717، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1842، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7840، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7749، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1188، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 708، 2991، 3378، والطبراني فى «الصغير» برقم: 329»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سونے کا ٹکڑا آیا اور یہ دھات کا پہلا صدقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا: یہ ہمارے دھات سے صدقہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب دھاتیں ہوں گی اور وہاں اللہ عز و جل کی بدترین مخلوق کے لوگ ہوں گے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الزَّكوٰة/حدیث: 405]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح،وأخرجه الضياء المقدسي فى "الأحاديث المختارة"، 304، 305، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3532، والطبراني فى «الصغير» برقم: 426 قال الھیثمی: ورجاله رجال الصحيح، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (3 / 78)»
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے غنی مسلمانوں پر ان کے مالوں میں ان کے فقراء کے لئے اتنا حصہ مقرر کیا ہے جتنا ان کے فقراء کو کافی ہو، اور فقراء جب بھوکے ہوں تو زیادہ مشقت میں نہ پڑ جائیں۔ اس رویہ سے جو اغنیاء ان سے کرتے ہیں خبردار! اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے روز سخت حساب لے گا، پھر انہیں سخت عذاب کرے گا۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الزَّكوٰة/حدیث: 406]
تخریج الحدیث: «حسن، أخرجه سعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 931، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13330، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3579، والطبراني فى «الصغير» برقم: 453 قال الھیثمی: تفرد به ثابت بن محمد الزاهد قلت ثابت من رجال الصحيح وبقية رجاله وثقوا وفيهم كلام، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (3 / 62)»
حكم: حسن
42. تین اشخاص جو سوال (چندہ یا مدد مانگنا) کر سکتے ہیں ان کا بیان
سیدنا قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اپنی قوم کی طرف سے ایک ضمانت اٹھائی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اپنی قوم کی طرف سے ایک ضمانت اٹھائی، آپ میری اس میں مدد فرمائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قبیصہ! بلکہ ہم خود ہی تیری یہ ضمانت اٹھا لیں گے، اور یہ تمہیں اس وقت مل جائے گی جب کہیں سے صدقہ کا مال آ جائے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قبیصہ! سوال کرنا صرف تین شخصوں کے لئے حلال ہے۔ ایک وہ شخص جس نے کوئی ضمانت اپنی قوم سے اپنے ذمہ لی ہو اور اس کا اراداہ بھی اصلاح کا ہو تو وہ سوال کر سکتا ہے، اور وہ اپنے مقصد کو حاصل کرے یا اس کے قریب ہو جائے تو رک جائے۔ دوسرا شخص وہ ہے جس پر کوئی ناگہانی آفت آجائے جس نے اس کا مال تباہ کر دیا، تو وہ بھی درست گزران کو پہنچنے تک سوال کر سکتا ہے۔ تیسرا وہ شخص ہے جس کو فاقہ پہنچے تو اس کی قوم کے تین آدمی اس کے ساتھ چل کر آئیں اور یہ بتائیں کہ فلاں شخص کو فاقہ پہنچا ہے، تو وہ بھی اس وقت تک سوال کر سکتا ہے جب تک وہ اپنی درست گزران تک نہ پہنچے، پھر جب وہ اس حالت پر پہنچ جائے تو رک جائے۔ اس کے علاوہ جو بھی سوال کیا جاتا ہے وہ حرام ہے، اس کا کھانے والا حرام کھاتا ہے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الزَّكوٰة/حدیث: 407]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1044، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2359، 2360، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3291، 3395، 3396، 4830، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2579، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2371، 2372، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1640، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1720، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11518، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1995، 1996، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16161، والحميدي فى «مسنده» برقم: 838، والطبراني فى «الكبير» برقم: 946، 947، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3674، والطبراني فى «الصغير» برقم: 500»
سیدنا مجاہد کہتے ہیں: ایک آدمی حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ سوال کرنا صرف تین آدمیوں کے لئے درست ہے۔ سخت ضرورت مند یا بھاری ضمانت میں یا جان توڑ قرضے میں، پھر انہوں نے اس کو وہ چیز دے دی۔ پھر وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اس کو دے دیا، اور کچھ نہ پوچھا۔ اس آدمی نے کہا: میں تیرے چچا کے بیٹوں کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا اور تونے مجھ سے نہیں پوچھا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں، اور وہ دونوں علم کو لقمہ بناتے ہیں اور سکھاتے ہیں۔ [معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الزَّكوٰة/حدیث: 408]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 3690، والطبراني فى «الصغير» برقم: 510 قال الھیثمی: رواه الطبراني في الصغير والأوسط، وفيه يونس بن خباب، وهو ضعيف (100/3) برقم: 4551»
حكم: إسناده ضعيف
43. اپنے مال و اولاد کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو آدمی جنہیں اللہ نے بہت مال اور اولاد عطا فرمائی ہوگی تو انہیں قیامت کو کہے گا: ”اے فلاں شخص!“ وہ کہے گا: اے اللہ! میں حاضر ہوں، اور نیک بختی تیرے پاس ہے۔ اللہ فرمائے گا: ”کیا میں نے تجھے بہت زیادہ مال و اولاد نہیں دی تھی؟“ وہ کہے گا: کیوں نہیں، اے میرے رب! وہ فرمائے گا: ”پھر تم نے اس کے شکر میں کیا کیا؟“ وہ کہے گا: یا اللہ! میں نے وہ مال اولاد کے لئے چھوڑ دیا تاکہ وہ تنگ دست نہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”خبردار! اگر تجھے علم ہوتا تو تو بہت کم ہنستا اور بہت زیادہ روتا۔ خبر دار! تو جس چیز سے ان کے متعلق ڈر رہا تھا، میں نے وہی چیز اُن پر بھیج دی ہے۔“ پھر اللہ تعالیٰ دوسرے شخص سے پوچھے گا اور اسے فرمائے گا: ”اے فلاں شخص!“ وہ بھی کہے گا: اے رب! میں حاضر ہوں اور نیک بختی تیرے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا: ”کیا میں نے تجھے مال و اولاد بکثرت نہیں دی تھی؟“ وہ کہے گا: کیوں نہیں، اے میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”تو تو نے اس میں کیا کیا؟“ وہ کہے گا: یا اللہ! میں نے اس کو تیری راہ میں اور فرماں برداری میں خرچ کر دیا، اور تیرے انصاف پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”اگر تو جان لیتا تو بہت زیادہ ہنستا اور بہت کم روتا، تو نے جس چیز پر اعتماد کیا ہم نے وہ تمہیں دے دی ہے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الزَّكوٰة/حدیث: 409]
تخریج الحدیث: « [إسناده ضعيف، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 4383، والطبراني فى «الصغير» برقم: 600 قال الھیثمی: رواه الطبراني في الصغير والأوسط، وفيه يوسف بن السفر، وهو ضعيف . (123/3) برقم: 4680»
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں گھوڑے اور غلام کا صدقہ معاف کر دیا۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الزَّكوٰة/حدیث: 410]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 1790، 1813، قال الشيخ الألباني: صحيح، أخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2262، 2270، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1458، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2475، 2476، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2268، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1572، بدون ترقيم، 1574، والترمذي فى «جامعه» برقم: 620، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1669، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7360، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1892، وأحمد فى «مسنده» برقم: 722، 928، والحميدي فى «مسنده» برقم: 54، والطبراني فى «الكبير» برقم: 57، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 6404، 6647، والطبراني فى «الصغير» برقم: 649»
سیدنا ابوحدرد اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک یہودی کا مجھ پر چار درہم قرض تھا، وہ میرے پیچھے پڑ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر جانا چاہتے تھے، تو میں نے اس سے واپس آنے تک مہلت مانگی، میں نے سوچا شاید ہمیں کوئی مالِ غنیمت ہاتھ آجائے تو اسے دے دوں گا، وہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو اس کا حق ادا کر دو“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ یہی بات فرمائی۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ خیبر جانا چاہتے ہیں تو شاید اللہ تعالیٰ ہمیں وہاں سے کچھ مالِ غنیمت عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو اس کا حق دو“، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین دفعہ کوئی بات کہہ دیتے تو اس کو رد نہ کیا جا سکتا۔ میرے جسم پر ایک تہہ بند اور سر پر پگڑی تھی، جب میں وہاں سے نکلا تو میں نے کہا: مجھ سے یہ تہہ بند خرید لو، تو اس یہودی نے مجھ سے وہ تہہ بند ان درہموں کے بدلے میں لے لی جو میں نے اس کے دینے تھے۔ تو میں نے پگڑی اتار کر تہبند باندھ لی اور تہہ بند اس کو دے دی، میرے پاس سے ایک عورت گزری اس نے مجھے اپنی چادر دے دی، میں نے اس کو پہن لیا۔ [معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الزَّكوٰة/حدیث: 411]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، أخرجه أحمد فى «مسنده» برقم: 15729، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4512، والطبراني فى «الصغير» برقم: 655»
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا تو صدقے کا حکم دیا اور مُثلہ سے منع فرمایا۔ [معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الزَّكوٰة/حدیث: 412]