سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی آیت الکرسی، حم (سورہ المومن) کے شروع سے «﴿ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴾»[غافر 3/40] تک پڑھے وہ شام تک ایسی چیز نہیں دیکھے گا جو اسے ناپسند ہو اور جو شخص ان کو شام کو پڑھے گا تو صبح تک ایسی چیز نہیں دیکھے گا جو اسے ناپسند ہو۔“[سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3418]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 3429] » عبدالرحمٰن بن ابی بکر کی وجہ سے اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ باقی رواۃ ثقات ہیں۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا فرمانے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی، اس میں سے دو آیتیں نازل فرمائیں جن سے سورہ البقرہ کو ختم کیا (یعنی آخری دو آیتیں)، اور یہ دونوں آیتیں تین رات جس گھر میں پڑھی جائیں گی اس سے شیطان قریب نہ ہو گا۔“[سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3419]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3430] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2882] ، [فضائل القرآن لابي عبيد، ص: 232] ، [الحاكم 2065] ، [البيهقي شعب الإيمان 2400] و [فضائل القرآن الضريس 167]
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو سورہ البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے وہ اس کے لئے کافی ہیں۔“ صحیح بخاری میں ہے: ”جس نے سورہ بقرہ کی دو آخری آیتیں رات میں پڑھ لیں وہ اسے (ہر آفت سے بچانے کے لئے) کافی ہو جائیں گی۔“[سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3420]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3431] » اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5009] ، [مسلم 807] ، [ابن حبان 781] ، [الحميدي 457] ، [النسائي فى فضائل القرآن 28، 29، 44] ، [عبدالرزاق 6020] ، [ابن الضريس 161]
سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے: «﴿اَللّٰهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ . . . . . .﴾» [البقره: 255/2] اور «﴿وَإِلٰهُكُمْ إِلٰهٌ وَاحِدٌ . . . . . .﴾»[البقره: 163/2]“[سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3421]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن من أجل عبيد الله بن أبي زياد، [مكتبه الشامله نمبر: 3432] » عبداللہ بن ابی زیاد کی وجہ سے اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1496] ، [ترمذي 3476] ، [ابن ماجه 3855] ، [أحمد 461/6] ، [ابن أبى شيبه 9412] ، [ابن الضريس 182] ، [مشكل الآثار 64/1] ، [شرح السنة للبغوي 1261] و [البيهقي فى شعب الإيمان 2383]
جبیر بن نفیر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کو دو آیتوں سے ختم کیا ہے جو مجھے عرش کے تلے خزانہ سے دی گئی ہیں، تم ان کو سیکھو اور اپنی عورتوں کو سکھاؤ کیوں کہ یہ دونوں آیتیں برکت، قرآن، اور دعا ہیں۔“[سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3422]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 3433] » اس حدیث کے رواۃ ثقات ہیں لیکن مرسل ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد فى المراسيل 91] ، [الحاكم 2066، 2067] ، [أحمد 151/5، 383] ، [النسائي فى فضائل القرآن 47] و [الفريابي فضائل القرآن 53، وغيرهم]
15. باب في فَضْلِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَآلِ عِمْرَانَ:
عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے روایت کیا، انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، میں نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”سورہ بقرہ کو سیکھو، اس کو حاصل کرنا (یعنی پڑھنا) باعث برکت اور ترک کرنا حسرت ہے، اور جادوگر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا: ”سورہ البقرہ اور آل عمران کا علم حاصل کرو، یہ دونوں سورتیں چمکیلی ہیں اور قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے پر سایہ کئے ہوں گی جیسے کہ دو بادل ہیں یا سائبان ہیں، یا اڑتے ہوئے پرندوں کی دو ٹکڑیاں ہیں، یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے حجت کرتی (دفاع کرتی) ہوئی آئیں گی، اور قیامت کے دن قرآن پاک اپنے پڑھنے والے کے پاس جب وہ قبر سے اٹھےگا، تھکے ماندے شخص کی صورت میں آئے گا (جس کا بیماری اور سفر کی وجہ سے رنگ بدل گیا ہو) اور قرآن اس سے کہے گا: کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ وہ جواب دے گا: نہیں، قرآن کہے گا: میں قرآن تمہارا وہ ساتھی ہوں جس نے گرمی کی دوپہر میں تمہیں پیاسا رکھا (یعنی پیاس میں بھی قرآن پڑھتے رہے)، راتوں کو تمہیں جگایا، جب کہ ہر تجارت پیشہ آدمی اپنی تجارت میں لگے تھے، لیکن آج تم ہر قسم کی تجارت کے پیچھے ہو، پھر اس کو داہنے ہاتھ میں ملک عطا ہو گی اور بایاں ہاتھ میں خلد بریں، اور اس کے سر پر وقار کا تاج پہنایا جائے گا، اور اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے جو دنیا کے لحاظ سے انمول ہوں گے، وہ دونوں ماں باپ کہیں گے: یہ لباس ہم کو کیوں پہنائے گئے ہیں؟ ان کو جواب دیا جائے گا: تمہارے بیٹے کے قرآن یاد کرنے کی وجہ سے ہے، پھر اس (حافظ قرآن) سے کہا جائے گا: قرآن پڑھتے جاؤ اور جنت کی سیڑھی و بالا خانوں پر چڑھتے جاؤ، چنانچہ وہ ہذا یا ترتیلا جس طرح بھی پڑھے جب تک پڑھتا رہے گا چڑھتارہے گا۔“[سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3423]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن من أجل بشير بن المهاجر، [مكتبه الشامله نمبر: 3434] » بشیر بن مہا جر کی وجہ سے اس حدیث کی سند حسن ہے، لیکن اس کے بعض جملوں کے شواہد صحیحہ موجود ہیں۔ دیکھئے: [مسلم 804] ، [ابن ماجه 3781] ، [أحمد 348/5، واللفظ له] ، [الحاكم 2057] ، [ابن أبى شيبه 10094] ، [عبدالرزاق 6014]
ابویحییٰ سلیم بن عامر سے مروی ہے، انہوں نے ابوامامہ سے سنا، وہ کہتے تھے: تمہارے ایک بھائی نے خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک پہاڑ کی کی لمبی وحشت ناک دراڑ میں چل رہے ہیں، اور پہاڑ کی چوٹی پر دو ہرے بھرے درخت ہیں جو آواز لگا رہے ہیں: تم میں سے ایسا کوئی ہے جو سورہ بقرہ پڑھتا ہے؟ تم میں سے کوئی ہے جو سورہ آل عمران پڑھتا ہے؟ پس اگر کسی آدمی نے اثبات میں جواب دیا تو وہ دونوں درخت اس کے لئے اپنی شاخیں قریب کر دیتے ہیں جن کو پکڑ کر وہ شخص اکڑتا ہوا پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اعذاق و اغصان (یعنی ٹہنی اور شاخوں) کو کہتے ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3424]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 3435] » عبداللہ بن صالح کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ ابوعبید نے [فضائل القرآن، ص: 236] پر اس کو ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [الدر المنثور 18/1]
مسروق سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی نے سورہ بقرہ اور آل عمران کی تلاوت کی تو انہوں نے کہا: تم نے ایسی دو سورتیں پڑھی ہیں جن میں الله تعالیٰ کا وہ اسم اعظم ہے کہ اس نام کو لے کر اگر دعا کی جائے تو وہ قبول ہو، اور اگر کچھ مانگا جائے تو عطا ہو۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3425]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف جابر بن يزيد الجعفي، [مكتبه الشامله نمبر: 3436] » جابر بن یزید الجعفی کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن اس کا شاہد بسند جید موجود ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن للفريابي 44، ويشهد له حديث أسما بنت يزيد رقم 3421] ، نیز [مشكل الآثار لطحاوي 63/1] ، [طبراني فى الكبير 282/8، 7925] و [الفريابي بسند آخر جيد 47] و [الحاكم 1861]
ابوعطاف سے مروی ہے، سیدنا کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے کہا: جس شخص نے سورہ بقرہ اور آل عمران کا ورد رکھا تو یہ دونوں سورتیں قیامت کے دن آ کر اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں گی: اے ہمارے رب! اس کو مشکل و مصیبت میں نہ ڈال۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3426]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف عبد السلام متأخر السماع من سعيد بن إياس الجريري وهو موقوف على كعب الأحبار، [مكتبه الشامله نمبر: 3437] » یہ روایت سیدنا کعب الاحبار رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے، اور سند بھی ضعیف ہے، اور صرف [الدر المنثور 19/1] میں مذکور ہے۔ نیز سورہ بقرہ اور آل عمران کی فضیلت صحیح حدیث سے ثابت ہے جو اسی باب کے شروع میں مذکور ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے آل عمران پڑھی تو وہ غنی ہے اور (اس کے لئے) عورتیں مزین ہیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «محبرة»: مزینہ یعنی زینت والی سجی سجائی۔ [سنن دارمي/من كتاب فضائل القرآن /حدیث: 3427]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 3438] » اس اثر کی سند سلیم بن حنظلہ بکری کی وجہ سے جید ہے اور موقوف ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لابي عبيد، ص: 237-238] ، [شعب الإيمان للبيهقي 2615] و [عبدالرزاق 6015، بدون ذكر و النساء محبرة]