ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! اپنے آپ کو چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بچانا، الله تعالیٰ کا ان کے بارے میں مطالبہ ہوگا۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2761]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2768] » اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 5568] ، [موارد الظمآن 2497] ، [الزهد للامام أحمد، ص: 14]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سارے آدمی گنہگار ہیں اور گنہگاروں میں اچھے و بہتر وہ ہیں جو توبہ کر لیتے ہیں۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2762]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2769] » اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2499] ، [ابن ماجه 4251] ، [أبويعلی 2922] ، [عبد بن حميد 1197] ، [ابن أبى شيبه 16063]
19. باب لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ:
19. اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی اونٹنی لے کر بیابان جنگل کی طرف سفر پر نکلا، ایک درخت کے سایہ تلے وہ قیلولہ کر رہا تھا، اس کی سواری بھی اس کے ساتھ تھی جس پر اس کا زادِ راہ اور کھانا لدا ہوا تھا۔ جب بیدار ہوا تو دیکھا اس کی سواری اونٹنی تو جا چکی ہے۔ وہ ایک ٹیلے پر چڑھا کچھ نہ دکھائی دیا، دوسرے ٹیلے پر چڑھا وہاں سے بھی کچھ دکھائی نہ دیا (یعنی اونٹنی و غیره)، تیسرے ٹیلے پر چڑھا وہاں سے بھی کچھ دکھائی نہ دیا۔ ایک طرف متوجہ ہوا تو اونٹنی نظر آ گئی۔ اس وقت وہ اتنا خوش نہ ہوا ہوگا جتنا الله تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے خوش ہوتا ہے جب وہ توبہ کرے۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2763]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2770] » اس حدیث کی سند جید ہے اور اصل اس کی صحیحین میں موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6308] ، [مسلم 2745] ، [أحمد 273/4] ، [أبويعلی 5100، 6600] ، [ابن حبان 618، 821، وغيرهم]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع (چوکور نقشہ) بنایا اور اس کے بیچ میں ایک خط کھینچا اور اس کے ارد گرد خطوط بنائے اور ایک خط کھینچا جو مربع سے باہر نکلا ہوا تھا، فرمایا: ”یہ بیچ کا خط انسان ہے“ اور جو خطوط مربع کی شکل میں تھے، کہا: ”یہ اجل (موت) ہے“ اور جو چھوٹے چھوٹے خطوط تھے، فرمایا: ”یہ حوادث ہیں (انسان کو پیش آنے والی بیماریاں اور آفتیں ہیں) اگر ایک حادثہ اس سے خطا کر جاتا ہے تو دوسرا آ دبوچتا ہے آدمی مر جا تا ہے، اور باہر نکلا ہوا خط امید اور آرزو ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2764]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وأبو يعلى هو: المنذر بن يعلى، [مكتبه الشامله نمبر: 2771] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6417] ، [ترمذي 2454] ، [ابن ماجه 4231] ، [أبويعلی 5243] ، [أحمد 385/1]
کعب بن مالک نے اپنے والد (سیدنا مالک انصاری رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا: انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ بھی اتنا فساد برپا نہ کریں (خرابی نہ کریں) جتنا مال اور جاہ کی حرص آدمی کے دین کو خراب کرتی ہیں۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2765]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2772] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2376] ، [ابن حبان 3228] ، [موارد الظمآن 2472، وله شاهد عند الطبراني 96/19، 189] و [شعب الايمان للبيهقي 10265، وغيرهم]
سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: میں انسان کے حسنِ ظن کے قریب ہوں، پس وہ میرے ساتھ جیسا چاہے گمان رکھے۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2766]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2773] » مذکورہ بالا حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 633] ، [موارد الظمآن 717]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب الله تعالیٰ نے یہ آیت: «﴿وَأَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ﴾»(شعراء: 214/26)، اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرایئے نازل فرمائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قریش کے لوگو! تم اپنی جان کو الله تعالیٰ سے (اعمالِ صالحہ کے بدلے) مول لے لو (بچالو)، میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آنے کا (یعنی اللہ کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کر سکوں گا)۔ اے عبدمناف کے بیٹو! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آنے کا۔ اے عباس (آپ کے چچا) عبدالمطلب کے بیٹے! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آنے کا۔ اے صفیہ (آپ کی پھوپھی) عبدالمطلب کی بیٹی! میں اللہ کے سامنے آپ کے کچھ کام نہیں آنے کا۔ اے فاطمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی! تو چاہے تو میری بیٹی میرا مال مانگ لے، میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2767]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2774] » اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2753] ، [مسلم 355/204] ، [ترمذي 3185] ، [نسائي 3664] ، [ابن حبان 646]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب رہو اللہ کے اور میانہ روی اختیار کرو (یعنی جو نیک کام کرو ٹھیک سے کرو، کمی یا زیادتی نہ کرو) اور یہ یاد رکھو کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے ہرگز جنت میں نہ جا سکے گا۔“ عرض کیا: یا رسول الله! آپ بھی نہیں؟ فرمایا: ”میں بھی نہیں سوائے اس کے کہ الله تعالیٰ اپنی رحمت و فضل کے سائے میں مجھے ڈھانپ لے۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2768]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2775] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6467] ، [مسلم 2817] ، [أبويعلی 1775] ، [ابن حبان 350]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی نہیں مگر اس کے ساتھ ایک شیطان (جن) اس کا ساتھی نزدیک رہنے والا اور ایک ساتھی فرشتوں میں سے مقرر کر دیا گیا ہے۔“ صحابہ نے عرض کیا: کیا آپ کے ساتھ بھی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی ہے؟ فرمایا: ”ہاں میرے ساتھ بھی شیطان ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے میری اس پر مدد کی ہے اور وہ میرا مطیع ہو گیا ہے یا میں اس سے محفوظ ہو گیا ہوں۔“ امام محمد دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اسلم کہا ہے یعنی وہ تابع فرمان ہو گیا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2769]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2776] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2814] ، [أبويعلی 5143] ، [ابن حبان 6417] ، [دلائل النبوه 127]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں وہ معلوم ہو جائے جو مجھے معلوم ہے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2770]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2777] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4621] ، [مسلم 2359] ، [ابن ماجه 4191] ، [أبويعلی 3105] ، [ابن حبان 5792]