سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی اونٹنی لے کر بیابان جنگل کی طرف سفر پر نکلا، ایک درخت کے سایہ تلے وہ قیلولہ کر رہا تھا، اس کی سواری بھی اس کے ساتھ تھی جس پر اس کا زادِ راہ اور کھانا لدا ہوا تھا۔ جب بیدار ہوا تو دیکھا اس کی سواری اونٹنی تو جا چکی ہے۔ وہ ایک ٹیلے پر چڑھا کچھ نہ دکھائی دیا، دوسرے ٹیلے پر چڑھا وہاں سے بھی کچھ دکھائی نہ دیا (یعنی اونٹنی و غیره)، تیسرے ٹیلے پر چڑھا وہاں سے بھی کچھ دکھائی نہ دیا۔ ایک طرف متوجہ ہوا تو اونٹنی نظر آ گئی۔ اس وقت وہ اتنا خوش نہ ہوا ہوگا جتنا الله تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے خوش ہوتا ہے جب وہ توبہ کرے۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2763]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2770] » اس حدیث کی سند جید ہے اور اصل اس کی صحیحین میں موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6308] ، [مسلم 2745] ، [أحمد 273/4] ، [أبويعلی 5100، 6600] ، [ابن حبان 618، 821، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2762) اس حدیث میں بھی توبہ کی ترغیب ہے، اور توبہ الله تعالیٰ کو محبوب ہے۔ مثال سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ ایک آدمی بیابان جنگل میں ہو، کھانے پینے کی کوئی چیز اس کے پاس نہیں، سواری سب کچھ لے کر غائب ہوگئی، اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کیا، ناکام اور مایوس ہو کر بیٹھ گیا اور موت کا یقین ہوگیا، ایسے میں اچانک اپنا اونٹ اسے نظر آ جائے تو وہ کتنا خوش ہوگا، اس کا اندازہ کرنا آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ بندے سے توبہ کے وقت اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔