سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ جس کی بہتری چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ دیتا ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2741]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2748] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2647] ، [طبراني 392/11، 10786] ، [شرح السنة 132] ۔ یہی حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 71] ، [مسلم 98/1037]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صحت و فراغت الله کی نعمتوں میں سے دو ایسی نعمتیں ہیں جن کی اکثر لوگ قدر نہیں کرتے ہیں۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2742]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2749] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6412] ، [ابن ماجه 4170] ، [أحمد 285/1] ، [طبراني 392/10، 10787]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ایسے لوگوں کی بات سننے کے لئے کان لگائے جو اسے (سننے کو) پسند نہیں کرتے تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2743]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2750] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7042] ، [أبوداؤد 5024] ، [ترمذي 1751] ، [أبويعلی 2577] ، [ابن حبان 5685] ، [مسند الحميدي 541]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نظر کے پیچھے نظر نہ ڈالو (یعنی پہلی بار ناگہاں بنا قصد کے کسی اجنبی عورت پر نظر پڑ جائے تو دوبارہ اس کی طرف نہ دیکھو) کیونکہ پہلی نظر تو معاف ہے، لیکن دوسری تمہارے اوپر گناہ ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2744]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2751] » اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2149] ، [ترمذي 2777] ، [أحمد 3/5] ، [الحاكم 123/3] ، [ابن حبان 5570] ، [الترغيب 35/3]
سیدنا سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتایئے کہ میں کسی اور سے اس کے بارے میں نہ پوچھوں۔ فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور استقامت اختیار کرو۔“ میں نے کہا: پھر اس کے بعد کون سی چیز ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا (یعنی اس کو قابو میں رکھو اور اس کی حفاظت کرو)۔ [سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2745]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2752] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ ديكهئے: [مسلم 38] ، [ترمذي 2410] ، [ابن ماجه 3972] ، [ابن حبان 5698] ، [الموارد 2543]
سیدنا سفیان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ایسی بات بتلایئے جس کو میں مضبوطی سے تھامے رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو اللہ میرا رب ہے، پھر اسی پر جمے رہو“، پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو زیادہ ڈر میرے اوپر کس چیز کا ہے؟ سیدنا سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا اور فرمایا: ”اس کا۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2746]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف إبراهيم بن إسماعيل بن مجمع ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2753] » اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ (یعنی مسلمانوں میں کون سب سے بہتر ہے؟) فرمایا: ”جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2747]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2754] » اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن بہت سے طریق سے مروی ہے اس لئے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2503] ، [مسند الشهاب 334] ، [الزهد لابن المبارك 385] ، [شرح السنة 4129] ، [طبراني فى الأوسط 1954] ، [الترغيب 536/3، وغيرهم] ۔ نیز دیکھئے: حديث رقم (2751)
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو خاموش رہا نجات پا گیا۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2748]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2755] » اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن اس کے بہت سے شواہد ہیں اور معنی فی الحقیقہ صحیح ہے۔ خاموشی میں نجات ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2503] ، [أحمد 159/2، 177] ، [مسند الشهاب للقضاعي 334] ، [الزهد لابن المبارك 385] ، [شرح السنة 4129، وغيرهم]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ غیبت کیا ہے؟ فرمایا: ”غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرو جو اسے ناگوار ہو۔“ عرض کیا گیا: اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس میں جو تم کہہ رہے ہو وہ عیب موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی، اور اگر اس میں وہ عیب موجود نہیں تو تم نے اس کو بہتان لگایا۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2749]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2756] » اس روایت کی سند حسن ہے اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2589] ، [أبوداؤد 4874] ، [ترمذي 1934] ، [أبويعلی 6493] ، [ابن حبان 5758] ، [الموارد 1820]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بیان کیا کہ برے نقل کرنے والے وہ ہیں جو جھوٹ نقل کرتے ہیں، اور جھوٹ سنجیدگی یا مذاق کسی حال میں جائز نہیں، اور آدمی اپنے بیٹے سے جھوٹا وعدہ نہ کرے جو پورا نہ کر پائے، سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کو لے جاتی ہے، اور جھوٹ برائی کی راہ دکھاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے، اور سچے آدمی کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے سچائی اختیار کی اور نیکی کی راہ اپنائی، اور جھوٹے شخص کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا اور فجور کیا (یعنی جھوٹ اور فسق و فجور کی راہ اپنائی)، اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک (صادق) سچ لکھ لیا جاتا ہے، اور جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جھوٹا (کذاب) لکھ لیا جاتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے فرمایا:”سنو! کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ عضہ (بہتان قبیح) کیا ہے؟ وہ چغلی ہے جو لوگوں کے درمیان فساد برپا کردیتی ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2750]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وجرير هو: ابن عبد الحميد وإدريس هو ابن يزيد الأودي، [مكتبه الشامله نمبر: 2757] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2606] ، [أحمد 437/1، وغيرهما] ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: بخاری و مسلم کے جو نسخے متداول ہیں ان میں یہ حدیث «ان الصدق يهدي ...... حتي يكتب عند الله كذابا» پائی جاتی ہے، لیکن ابومسعود دمشقی نے شر الروایا کا پہلا جملہ بھی روایت کیا ہے جس کو امام دارمی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔