حجاج بن حجاج اسلمی نے اپنے والد (سیدنا حجاج رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دودھ کے حق کو کون سی چیز مجھ سے دور کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک غلام یا لونڈی۔“[سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2291]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2300] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2064] ، [ترمذي 1153] ، [نسائي 3329] ، [أبويعلی 6835] ، [ابن حبان 4230] ، [موارد الظمآن 1253]
51. باب شَهَادَةِ الْمَرْأَةِ الْوَاحِدَةِ عَلَى الرَّضَاعِ:
51. رضاعت کے ثبوت کے لئے ایک عورت کی گواہی کافی ہے
عبداللہ بن ابی ملیکہ نے کہا: سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے مجھ سے حدیث بیان کی پھر کہا: نہیں مجھ سے نہیں بلکہ میں نے سنا تھا وہ لوگوں کو حدیث بیان کر رہے تھے کہ میں نے ابواہاب (بن عزیر) کی لڑکی سے شادی کی تو ایک کالی خاتون آئیں اور کہا کہ میں نے تم دونوں (میاں بیوی) کو دودھ پلایا ہے (یہ سن کر) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے منہ موڑ لیا، (انہوں نے بار بار یہ عرض کیا)، ابوعاصم نے کہا: تیسری یا چوتھی بار پھر جب سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس طرح (تم اس لڑکی سے رشتہ رکھو گے) اور اس کے بارے میں یہ کہا گیا ہے (یعنی تم دونوں دودھ شریک بھائی بہن ہو) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کو اس لڑکی کے پاس جانے سے روک دیا۔ ابوعاصم نے کہا: عمرو بن سعید بن ابی حسین نے ابن ابی ملیکہ سے صرف یہ لفظ ذکر کیا ( «فكيف وقد قيل») اور یہ نہیں کہا ( «نهاه عنها») یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کو اس سے روک دیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ہمارے نزدیک بھی یہی حکم ہے۔ (یعنی رضاعت کا شبہ بھی ہو جائے تو آدمی اس لڑکی سے دور رہے شادی نہ کرے)۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2292]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2301] » اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن یہ حدیث اور واقعہ بالکل صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 88] ، [أبوداؤد 3603] ، [ترمذي 1151] ، [نسائي 3330] ، [ابن حبان 4216] ، [الحميدي 590]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، اس وقت ان کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا، آپ کا چہرہ مبارک بدل گیا اور طبع مبارک پر ناگواری کے آثار دیکھے تو عرض کیا: یہ تو میرا دودھ شریک بھائی ہے، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ”تحقیق و غور کر لو کہ تمہارے (رضاعی) بھائی کون ہیں؟ رضاعت اس وقت معتبر ہے جب دودھ بھوک کے وقت پیا جائے۔“[سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2293]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2302] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2647، 5102] ، [مسلم 1455] ، [أبوداؤد 2058] ، [نسائي 3312] ، [ابن ماجه 1945] ، [طيالسي 1569] ، [أحمد 94/6، 174]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: سیدہ سہلہ بنت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہا جو سیدنا ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: ابوحذیفہ کا غلام سالم ہمارے گھر میں آتا ہے اور میں گھر کے معمولی لباس میں ہوتی ہوں، اور ہم اسے اپنا بچہ تصور کرتے ہیں، اور ابوحذیفہ نے ان کو متبنی کر لیا تھا جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو متبنی بنا لیا تھا یہاں تک کہ یہ آیت: «﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ ...... ﴾»[احزاب: 5/33] نازل ہوئی۔ بہر حال ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ سالم کو دودھ پلا دیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: بڑے آدمی کو دودھ پلانا یہ صرف سالم کے لئے خاص تھا۔ یعنی اور کوئی بڑا دودھ پی لے تو حرمت ثابت نہ ہو گی۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2294]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2303] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5088] ، [مسلم 1453] ، [نسائي 3320] ، [ابن ماجه 1943] ، [ابن حبان 4213، 4215] ، [مسند الحميدي 280]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے اس پر۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2295]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2304] » اس حدیث کی سند صحیح ہے اور کچھ اسانید سے یہ حدیث ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1120] ، [نسائي 3416] ، [أبويعلی 5054]
54. باب في وُجُوبِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ عَلَى أَهْلِهِ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہند (بنت عتبہ) معاویہ کی ماں اور سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہم کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ابوسفیان بخیل آدمی ہیں، وہ مجھے اتنا خرچہ نہیں دیتے جو مجھے اور میرے بچوں کے لئے کافی ہو مگر یہ کہ میں کچھ ان کی لاعلمی میں لے لوں، تو ایسا کرنے میں مجھ پر گناہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عادت کے مطابق بھلے طریقہ سے تم اتنا مال لے سکتی ہو جو خود تمہارے اور تمہارے بچوں کے لئے کافی ہو۔“[سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2296]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2305] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2211] ، [مسلم 1714] ، [أبوداؤد 3532] ، [أبويعلی 4636] ، [ابن حبان 4255] ، [الحميدي 244]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک رکھے اور جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اس کو چھوڑ دو۔“[سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2297]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2306] » یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3895] ، [ابن حبان 4177] ، [موارد الظمآن 1312]
56. باب في تَزْوِيجِ الصِّغَارِ إِذَا زَوَّجَهُنَّ آبَاؤُهُنَّ:
56. چھوٹی بچیوں کا اگر ان کے باپ دادا نکاح کر دیں اس کا بیان
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح ہوا تو میری عمر چھ سال تھی، پھر ہم ہجرت کر کے مدینہ آئے تو بنو حارث بن خزرج کے یہاں ٹھہرے، یہاں آ کر مجھے بخار آ گیا اور اس کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے، پھر مونڈھوں تک خوب بال ہو گئے، پھر ایک دن (میری والدہ) ام رومان آئیں اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی، انہوں نے مجھے پکارا تو میں حاضر ہوئی اور مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے، آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے دروازے کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جا رہا تھا، تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے کچھ تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا، پھر مجھے گھر کے اندر لے گئیں، وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں جنہوں نے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ اللہ خیر و برکت کرے اور تمہارا اچھا نصیب ہو، میری ماں نے مجھے ان کے حوالے کر دیا اور انہوں نے میری آرائش کی، اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور ان عورتوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دیا اور اس وقت میری عمر نو سال تھی۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2298]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2307] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3894] ، [مسلم 2438] ، [أبويعلی 4498] ، [ابن حبان 7097]