محمد بن عبدالله نوفل نے کہا: جس سال سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج کیا، میں نے انہیں سیدنا سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کرتے ہوئے سنا: آپ عمرے کے بعد حج کے لئے تمتع کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ (یعنی عمرے کے بعد احرام کھول دینے اور آٹھ ذوالحجہ کو حج کے لئے دوبارہ احرام باندھنے کے بارے میں)، انہوں نے کہا: تمتع بہت بہتر و اچھا ہے یعنی افضل ہے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تو اس (تمتع) سے منع کرتے تھے تو کیا تم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بہتر ہو؟ جواب دیا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے بہتر تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا اور وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بہتر تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1852]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1855] » اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مسند ابي يعلی 805] ، [صحيح ابن حبان 3923، 3939] ، [موارد الظمآن 995، 996]
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو میں (یمن سے واپس) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (وادی بطحاء) میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”کیا تم نے حج کا ارادہ کیا؟“ عرض کیا: جی ہاں، فرمایا: ”تم نے کون سا احرام باندھا؟“ عرض کیا: جیسا آپ نے باندھا، فرمایا: ”تم نے بہت اچھا کیا، اب جاؤ کعبہ کا طواف کرو اور صفا و مروہ کی سعی کرو پھر احرام کھول دو“، سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے طواف و سعی صفا و مروہ کی کر لی پھر (اپنے خاندان) بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا جس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں (یعنی کنگھی کی)، پھر میں لوگوں کو عمرے کے بعد احرام کھول دینے یعنی تمتع کا فتویٰ دینے لگا، تو ایک شخص نے مجھ سے کہا: اے عبداللہ بن قیس (یہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا نام ہے) اپنے اس فتوے سے توقف کرو، کیونکہ تم کو معلوم نہیں تمہارے بعد امیر المومنین نے نیا حکم دیا ہے، چنانچہ میں نے اعلان کیا کہ: اے لوگو! ہم نے جس کو (تمتع کا) فتویٰ دیا ہے وہ انتظار کرے کیونکہ امیر المومنین تشریف لانے والے ہیں، تم ان کی اقتدا کرنا، پس جب امیر المومنین (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ) تشریف لے آئے تو میں نے ان سے اس کا ذکر کیا، فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ ہم کتاب اللہ پر عمل کریں، اللہ تعالیٰ نے احرام کی حالت میں رہنے کا حکم دیا ہے «وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ» اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بھی عمل کریں جنہوں نے ہدی کی قربانی تک احرام نہیں کھولا۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1853]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1856] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1559] ، [مسلم 1221] ، [أبويعلی 7778] ، [نسائي 2737، 2741]
19. باب مَا يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ في إِحْرَامِهِ:
19. احرام کی حالت میں محرم کا جن جانوروں کو مار ڈالنا جائز ہے
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانور ہیں جن کے قتل کرنے میں کوئی گناہ نہیں: کوا، چوہیا، چیل، بچھو، اور کالا کتا“(کٹ کھنا کتا)۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1854]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1857] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے دیکھئے: [بخاري 1826] ، [مسلم 1199] ، [نسائي 2835] ، [أبويعلی 5428] ، [ابن حبان 3961] ، [الحميدي 631]
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ موذی جانوروں کو حل و حرم میں مار ڈالنے کا حکم دیا: چیل، کوا، چوہیا، بچھو اور کالا یا کاٹنے والا کتا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: بعض رواۃ نے «الكلب العقور» کہا اور بعض نے «الكلب الاسود» ۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1855]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1858] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1829، 3314] ، [مسلم 1198] ، [ترمذي 837] ، [نسائي 2890]
سالم نے اپنے والد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی طرح مرفوعاً روایت کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1856]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 1859] » اس روایت کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [أبويعلی 4503] ، [ابن حبان 5632، 5633] ، [مصنف عبدالرزاق 8374]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں پچھنا لگوایا۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1857]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1860] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1835] ، [مسلم 1202] ، [أبوداؤد 1835] ، [ترمذي 839] ، [نسائي 2845]
سیدنا عبدالله بن بحینہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کہ آپ محرم تھے، مقام لحی جمل میں پچھنا لگوایا۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1858]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1861] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1836] ، [مسلم 1203] ، [نسائي 2850] ، [ابن ماجه 3481] ، [ابن حبان 3953] ، [معرفة السنن والآثار للبيهقي 9732]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ اسحاق راہویہ نے کہا: سفیان نے ایک مرتبہ عطا سے روایت کی اور ایک مرتبہ طاؤس سے اور ایک مرتبہ دونوں سے روایت کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1859]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1862] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1835] ، [مسلم 1202] ، [أبويعلی 2360، 2390] ، [ابن حبان 3950، 3951] ، [الحميدي 508، 509]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں نکاح کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھے ہوئے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1860]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1863] » اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1837، 4259] ، [مسلم 1410] ، [ترمذي 842] ، [نسائي 2840] ، [أبويعلی 2393] ، [ابن حبان 4129] ، [الحميدي 513]
نبیہ بن وہب نے روایت کیا کہ قریش کے ایک شخص نے ابان بن عثمان کے پاس پیغام شادی بھیجا جو کہ اس موسم میں امیر الحج تھے، ابان نے کہا: تم بالکل عراقی گنوار لگتے ہو، بیشک محرم نہ اپنا نکاح کر سکتا ہے نہ کروا سکتا ہے، ہم کو اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے دی۔ امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ فرمایا: ہاں (یعنی محرم نہ نکاح کرے نہ کروائے)۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1861]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1864] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1409] ، [أبوداؤد 1841] ، [ترمذي 840] ، [ابن ماجه 1966] ، [ابن حبان 4123]