سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ: میں نے چاند دیکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؟“ اس نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بلال! لوگوں میں منادی کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں۔“[سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1730]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 1734] » اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن مذکورہ بالا حدیث اس کی شاہد ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2340] ، [ترمذي 691] ، [نسائي 2111] ، [ابن ماجه 1652] ، [أبويعلی 2531] ، [ابن حبان 3446] ، [موارد الظمآن 870]
7. باب مَتَى يُمْسِكُ الْمُتَسَحِّرُ عَنِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے کہا: ابتدائے اسلام میں جب اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے اور افطار کا وقت آتا تو کوئی روزے دار اگر افطار سے پہلے سو جاتا تو اس رات بھی اور آنے والے دن بھی شام تک وہ کھا نہیں سکتا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ سیدنا قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ روزے سے تھے، جب افطار کا وقت ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور کہا: تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے؟ انہوں نے کہا: اس وقت تو کچھ نہیں لیکن میں جاتی ہوں کہیں سے لے آؤں گی، قیس نے دن بھر کام کیا تھا اس لئے ان کی آنکھ لگ گئی، جب بیوی واپس آئیں تو انہیں سوتے دیکھا تو کہا: افسوس تم محروم رہ گئے، جب دوپہر ہوئی تو قیس کو غش آ گیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی: «أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ ......»[بقره: 187/2] یعنی حلال کر دیا گیا تمہارے لئے رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا۔ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کھایا اور پیا یہاں تک کہ ظاہر ہو گئی ان کے لئے (صبح کی) سفید دھاری کالی سیاہ دھاری سے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1731]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1735] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1915] ، [أبوداؤد 2314] ، [ترمذي 2968] ، [ابن حبان 3460، 3461]
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہا: جب یہ آیت: «وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ»[بقرة: 187/2] نازل ہوئی تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے اپنے تکیے کے نیچے ایک سفید اور ایک کالا دھاگہ رکھا لیکن میرے لئے تو کچھ بھی ظاہر نہ ہوا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بڑے تکیے والے ہو، اس سے مراد: رات کا اندھیرا اور دن کی سفیدی ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1732]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1736] » اس روایت کی سند حسن لیکن حدیث صحیح ہے اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1916] ، [مسلم 1090] ، [أبوداؤد 2349] ، [ترمذي 2971] ، [ابن حبان 3462] ، [مسند الحميدي 941]
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے، راوی نے کہا: میں نے زید سے پوچھا سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا؟ بتایا کہ پچاس آیات پڑھنے کے برابر فاصلہ ہوتا تھا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1733]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1737] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1921] ، [مسلم 1097] ، [ترمذي 703] ، [نسائي 2154] ، [ابن ماجه 1694] ، [أبويعلی 2943] ، [ابن حبان 1497]
ابوقیس عمرو بن العاص کے غلام نے کہا کہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ہم کو کھانا رکھنے کا حکم دیتے تھے تاکہ سحری کریں لیکن کچھ زیادہ تناول نہ کرتے، ہم نے عرض کیا: آپ ہمیں کھانا رکھنے کا حکم تو دیتے ہیں لیکن کچھ زیادہ تناول نہیں فرماتے؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں اس لئے کھانا رکھنے کا حکم نہیں دیتا کہ مجھے کھانے کی بہت زیادہ اشتہاء ہوتی ہے، بلکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے ہیں: ”ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق یہ ہی سحری کھانا ہے“(اس لئے تھوڑا سا کھا لیتا ہوں)۔ [سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1735]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1739] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھے: [مسلم 1096] ، [أبوداؤد 2343] ، [ترمذي 708] ، [نسائي 2165] ، [أبويعلی 7337]
10. باب مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ مِنَ اللَّيْلِ:
ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے اس کا روزہ نہ ہو گا۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: میں فرض و واجب روزے میں یہی کہتا ہوں۔ [سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1736]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1740] » اس حدیث کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2454] ، [نسائي 196/4] ، [ابن ماجه 1700] ، [دارقطني 172/2] ، [شرح السنة 1744]
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ اس وقت تک خیر میں رہیں گے جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔“[سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1737]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1741] » یہ حدیث صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1957] ، [مسلم 1098] ، [ترمذي 699] ، [ابن ماجه 1697] ، [أبويعلی 7511] ، [ابن حبان 3502، 3506]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رات اس طرف (یعنی مشرق) سے آئے اور دن ادھر (یعنی مغرب میں) چلا جائے تو تمہارا افطار (کا وقت) ہو گیا۔“[سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1738]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1742] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1954] ، [مسلم 1100] ، [أبوداؤد 2351] ، [ترمذي 698] ، [أبويعلی 240] ، [ابن حبان 3513] ، [مسند الحميدي 20]
سیدنا سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو اسے کھجور سے افطار کرنا چاہیے، اگر کھجور نہ ملے تو صاف پانی سے افطار کرے کیونکہ پانی پاک ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1739]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد الرباب، [مكتبه الشامله نمبر: 1743] » اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2355] ، [ترمذي 695] ، [ابن ماجه 1699] ، [ابن حبان 3514] ، [الموارد 892]