سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرض نمازوں کی مثال تمہارے دروازے پر بہتی میٹھی ندی کی طرح ہے جس سے کوئی ہر روز پانچ بار غسل کرتا ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1216]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «اسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1220] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 688] ، [مسند أبى عوانة 21/2] ، [صحيح ابن حبان 1725] و [مسند أبى يعلي 1941]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”کسی آدمی کے دروازے پر ایک نہر ہو جس سے وہ ہر روز پانچ بار نہاتا ہے، بتاؤ کیا اس سے اس پر کچھ میل باقی رہے گا؟“ عرض کیا: کچھ میل نہیں بچے گا۔ فرمایا: ”یہی مثال پنج وقتہ نمازوں کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان (نمازوں) کے ذریعہ گناہوں کو صاف کر دیتا ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1217]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1221] » اس سند سے یہ روایت ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 528] ، [مسلم 697] وغيرهما۔
محمد بن حسن بن علی نے کہا: ہم نے سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما سے حجاج کے زمانے میں پوچھا جو کہ نماز تاخیر سے پڑھتے تھے، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا، اور عصر کی نماز (اس وقت پڑھتے) جب سورج صاف ہو جاتا، اور نماز مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا اور عشاء کی نماز کبھی جلدی اور کبھی دیر سے پڑھتے تھے، جب لوگ جمع ہو جاتے تو جلدی پڑھ لیتے اور جب لوگ تاخیر کرتے تو آپ تاخیر سے نماز پڑھتے، اور صبح کی نماز وہ سب (یا یہ کہا) یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1218]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1222] » یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 560] ، [مسلم 646] ، [مسند أبى يعلی 2029] ، و [ابن حبان 1728] ۔ واضح رہے کہ ان تمام مصادر میں ( «رُبَّمَا» ) کا لفظ موجو نہیں ہے۔
ابن شہاب سے مروی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک دن (عصر کی) نماز میں دیر کی تو عروہ بن زبیر ان کے پاس آئے اور عرض کیا کہ (اسی طرح) مغیرہ بن شعبہ نے ایک دن نماز میں تاخیر کی تو سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا: مغیرہ یہ کیا ہے؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو انھوں نے نماز پڑھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبریل علیہ السلام نے نماز پڑھی تو آپ نے بھی نماز پڑھی، پھر انھوں نے نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر انھوں نے نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر (جبریل علیہ السلام) نے نماز پڑھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے اسی طرح کا حکم دیا گیا ہے، (اس پر) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: عروہ تمہیں معلوم ہے کیا بیان کر رہے ہو، کیا جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے اوقات عمل کر کے بتائے تھے؟ عروہ نے کہا: بشیر بن ابی مسعود بھی اپنے والد کے طریق سے ایسے ہی بیان کرتے تھے۔ عروہ نے کہا: مجھ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس وقت پڑھ لیتے تھے جب دھوپ ابھی ان کے حجرے میں موجود ہوتی تھی، اس سے بھی پہلے کہ وہ دیوار پر چڑھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1219]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1223] » یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 521] ، [مسلم 610] و [أصحاب السنن، أحمد 274/5] ، [ابن حبان 1449] ، [الحميدي 456]
محمد بن اسحاق نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں (امام داری رحمہ اللہ نے کہا یعنی) مدینہ تشریف لائے تھے تو نماز کے اوقات میں (لوگ) بلا اذان کے جمع ہو جاتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کا سا بگل (نرسنگا) بنانے کا ارادہ فرمایا جس سے وہ (یہود) لوگوں کو نماز کے لئے بلاتے تھے، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا، پھر آپ نے ناقوس کا حکم دیا جو تراشا گیا تاکہ اس کو مسلمانوں کی نمازوں کے لئے بجایا جائے، اسی دوران عبداللہ بن زید بن عبدربہ (جو کہ حارث ابن لخزرج کے بھائی تھے) نے خواب دیکھا، پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آج رات سوتے ہوئے میرے پاس سے ایک شخص گزرا جو دو سبز کپڑے پہنے ہوئے اپنے ہاتھ میں ناقوس اٹھائے ہوا تھا، میں نے کہا: اے اللہ کے بندے اس ناقوس کو فروخت کرو گے؟ اس نے کہا: تم اس کو کیا کرو گے؟ میں نے کہا اس کے ذریعے نماز کے لئے بلائیں گے، تو اس نے کہا میں تم کو اس سے اچھی بات بتاؤں؟ میں نے کہا: وہ کیا ہے؟ اس نے کہا: تم یوں کہو۔ «الله أكبر الله أكبر، الله أكبر الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله» پھر وہ شخص تھوڑی دیر رکا اور پھر (یہی) کلمات ایک ایک بار دہرائے سوائے: «قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله» کے (یعنی اقامت کہی)۔ جب عبداللہ بن زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”إن شاء اللہ یہ سچا خواب ہے سو تم بلال رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور انہیں سکھا دو، وہ تم سے بلند آواز رکھتے ہیں“، پھر جب بلال نے اذان دی اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے سنی تو وہ اپنے ازار کو گھسیٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے میں نے بھی ایسا ہی خواب میں دیکھا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الحمدللہ یہ اور زیادہ سچی بات ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1220]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «اسناد ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1224] » یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے، لیکن صحیح سند موجود ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 499] ، [ابن ماجه 706] ، [ترمذي 189] ، [صحيح ابن حبان 1679] ، [موارد الظمآن 287] و [دلائل النبوة 17/7-18]
محمد بن عبداللہ بن زید بن عبدربہ نے کہا: میرے والد عبدالله بن زید نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس کا حکم فرمایا۔۔۔ اور پھر مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1222]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1225] » اس حدیث کا حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔
سالم نے اپنے والد (عبداللہ بن عمر) سے روایت کیا وہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال تو رات میں اذان دیتے ہیں، اس لئے تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ام مکتوم کے بیٹے اذان دیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1223]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1226] » یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 617] ، [مسلم 1092] ، [أبويعلی 5432] ، [ابن حبان 3469] ، [الحميدي 623] وغيرهم۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مؤذن تھے، بلال اور ام مکتوم کے بیٹے، چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال تو رات رہتے ہوئے اذان دیتے ہیں، سو تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سنو۔“ قاسم نے کہا: ان دونوں کی اذانوں میں اتنا وقفہ تھا کہ ایک اترتے اور دوسرے (اذان کے لئے) چڑھتے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1224]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «حديث ابن عمر متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1227] » یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 622] ، [مسلم 1092/38] و [صحيح ابن حبان 3473]
حفص بن عمر بن سعد موذن سے مروی ہے کہ سعد مسجد نبوی میں اذان دیا کرتے تھے۔ حفص نے کہا: میرے گھر والوں نے مجھ سے بیان کیا کہ بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز فجر کے لئے بلانے آئے، لوگوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے ہیں، بلال نے بلند آواز سے کہا: «الصلاة خير من النوم»”نماز نیند سے بہتر ہے“، لہٰذا یہ کلمہ اذان فجر میں شامل کر دیا گیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: سعد کو سعد القرظ کہا جاتا تھا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1225]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف فيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 1228] » یہ حدیث اس سند سے حفص بن عمر کی وجہ سے ضعیف ہے، اور اس سند سے [المعجم الكبير 5449] اور [الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم 2255] میں موجود ہے، نیز الصلاة خیر من النوم کا ثبوت صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [حديث أبي محذورة فى صحيح ابن حبان 1682] ، [موارد الظمآن 289] و [مصنف عبدالرزاق 1821]