سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں خط کا جواب دینا سلام کے جواب کی طرح ضروری سمجھتا ہوں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1117]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه ابن أبى شيبة: 26369 و ابن الجعد: 2399 و البيهقي فى شعب الإيمان: 9097»
سیدہ عائشہ بنت طلحہ رحمہا اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا اور میں ان کی زیرِ پرورش تھی۔ ان کے پاس دنیا کے اطراف و اکناف سے لوگ آتے تھے۔ بزرگ حضرات باری باری میرے پاس آتے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ میں ان کی خادمہ ہوں، اور نوجوان طالب علم بہنوں کی طرح میرا قصد کرتے اور مجھے ہدیے ارسال کرتے، اور مختلف شہروں سے مجھے خط لکھتے تو میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتاتی۔ خالہ جان یہ فلاں کا خط اور تحفہ ہے، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مجھے فر ماتیں: بیٹی! خط کا جواب دے دو اور ہدیے کا بدلہ بھی دے دو، اور اگر تمہارے پاس عطیے کا بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو میں دے دیتی ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ پھر وہ مجھے دے دیتیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1118]
حضرت عبداللہ بن دينار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عبدالملک بن مروان کی بیعت کی تو انہیں لکھا: بسم الله الرحمٰن الرحیم، امیر المومنین عبدالملک کے نام عبداللہ بن عمر کی طرف سے۔ آپ پر سلام، چنانچہ میں الله کی تعریف کرتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں، اور اقرار کرتا ہوں کہ حسبِ استطاعت آپ کے احکام سنوں گا، اور اطاعت بجالاؤں گا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ہوں گے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1119]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأحكام: 7205»
حضرت زید بن اسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ مجھے میرے والد نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف بھیجا۔ میں نے دیکھا وہ لکھ رہے تھے: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، اما بعد۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1120]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 25851 و ابن سعد فى الطبقات: 161/4»
ہشام بن عروہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط میں سے کئی خط دیکھے کہ جب کوئی بات ختم ہوتی، وہاں اما بعد لکھا ہوتا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1121]
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے یہ خط لکھا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہ کے بندے امیر المومنین معاویہ کے نام زید بن ثابت کی طرف سے۔ امیر المومنین آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔ میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ اما بعد۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1122]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه مالك فى الموطأ كما فى رواية محمد بن الحسن عنه: 901 و الطبراني فى الكبير: 134/5 و البيهقي فى الكبرىٰ: 247/6»
ابومسعود جریری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت حسن (بصری) رحمہ اللہ سے بسم اللہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ خطوط کے شروع میں بھی لکھنی چاہیے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1123]
تخریج الحدیث: «صحيح الإسناد عن الحسن وهو البصري»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد عن الحسن وهو البصري
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کوئی کام تھا۔ انہوں نے خط لکھنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے کہا: ابتدا ان کے نام سے کریں۔ وہ مسلسل اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے لکھا: بسم الله الرحمٰن الرحیم، معاویہ کی طرف۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1124]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 25889 و البيهقي فى الكبرىٰ: 130/10»
انس بن سیرین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے کہنے پر خط لکھا تو انہوں نے فرمایا: یوں لکھو: بسم الله الرحمٰن الرحیم، اما بعد الی فلان، یعنی فلاں کے نام۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1125]
انس بن سیرین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے خط لکھا: بسم الله الرحمٰن الرحیم، فلاں کے نام۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے منع کر دیا اور فرمایا کہ اس طرح لکھو: بسم اللہ۔ یہ اس کے نام ہے یعنی هو لکھ کر اس کا نام لکھو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1126]