سیدہ عائشہ بنت طلحہ رحمہا اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا اور میں ان کی زیرِ پرورش تھی۔ ان کے پاس دنیا کے اطراف و اکناف سے لوگ آتے تھے۔ بزرگ حضرات باری باری میرے پاس آتے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ میں ان کی خادمہ ہوں، اور نوجوان طالب علم بہنوں کی طرح میرا قصد کرتے اور مجھے ہدیے ارسال کرتے، اور مختلف شہروں سے مجھے خط لکھتے تو میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتاتی۔ خالہ جان یہ فلاں کا خط اور تحفہ ہے، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مجھے فر ماتیں: بیٹی! خط کا جواب دے دو اور ہدیے کا بدلہ بھی دے دو، اور اگر تمہارے پاس عطیے کا بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو میں دے دیتی ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ پھر وہ مجھے دے دیتیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1118]
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1118
فوائد ومسائل: اس سے معلوم ہوا کہ علمی مقاصد کے لیے خواتین سے خط و کتاب بھی جائز ہے بشرطیکہ کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔ اسی طرح خواتین جواب بھی دے سکتی ہیں۔ (۲) اس روایت سے قرون اولیٰ میں حصول علم کے شوق اور اہل علم کی اہمیت اور عزت و توقیر کا پتہ بھی چلتا ہے۔ (۳) علماء اور اساتذہ کے گھر تحائف بھیجنا مستحسن امر ہے اور اہل علم کو بھی چاہیے کہ وہ بدلے میں تحائف دیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1118