ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں، سلام کرو اور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں، کیونکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہو گا۔ آدم علیہ السلام نے کہا: السلام علیکم! فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ، انہوں نے آدم کے سلام پر ”ورحمۃ اللہ“ بڑھا دیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا۔“ اس کے بعد سے پھر خلقت کا قد و قامت کم ہوتا گیا، اب تک ایسا ہی ہوتا رہا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6227]
2. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اے ایمان والو! تم اپنے (خاص) گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں مت داخل ہو جب تک کہ اجازت نہ حاصل کر لو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کر لو۔ تمہارے حق میں یہی بہتر ہے تاکہ تم خیال رکھو۔ پھر اگر ان میں تمہیں کوئی (آدمی) نہ معلوم ہو تو بھی ان میں نہ داخل ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہہ دیا جائے کہ لوٹ جاؤ تو (بلاخفتگی) واپس لوٹ آیا کرو۔ یہی تمہارے حق میں زیادہ صفائی کی بات ہے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔ تم پر کوئی گناہ اس میں نہیں ہے کہ تم ان مکانات میں داخل ہو جاؤ (جن میں) کوئی رہتا نہ ہو اور ان میں تمہارا کچھ مال ہو اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو“۔
اور سعید بن ابی الحسن نے (اپنے بھائی) حسن بصری سے کہا کہ عجمی عورتیں سینہ اور سر کھولے رہتی ہیں۔ تو حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ ان سے اپنی نگاہ پھیر لو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”مومنوں سے کہہ دیجئیے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔“ قتادہ نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو ان کے لیے جائز نہیں ہے (اس سے حفاظت کریں) اور آپ کہہ دیجئیے ایمان والیوں سے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے سنگار ظاہر نہ ہونے دیں۔ «خائنة الأعين» سے مراد اس چیز کی طرف دیکھنا ہے، جس سے منع کیا گیا ہے۔ زہری نے نابالغ لڑکیوں کو دیکھنے کے سلسلہ میں کہا کہ ان کی بھی کسی ایسی چیز کی طرف نظر نہ کرنی چاہئے جسے دیکھنے سے شہوت نفسانی پیدا ہو سکتی ہو۔ خواہ وہ لڑکی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ عطاء نے ان لونڈیوں کی طرف نظر کرنے کو مکروہ کہا ہے، جو مکہ میں بیچی جاتی ہیں۔ ہاں اگر انہیں خریدنے کا ارادہ ہو تو جائز ہے۔ (الحمدللہ اب مکہ میں ایسے بازار ختم ہو چکے ہیں)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: Q6228]
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سلیمان بن یسار نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو قربانی کے دن اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا۔ وہ خوبصورت گورے مرد تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مسائل بتانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اسی دوران میں قبیلہ خثعم کی ایک خوبصورت عورت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھنے آئی۔ فضل بھی اس عورت کو دیکھنے لگے۔ اس کا حسن و جمال ان کو بھلا معلوم ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا تو فضل اسے دیکھ رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پیچھے لے جا کر فضل کی ٹھوڑی پکڑی اور ان کا چہرہ دوسری طرف کر دیا۔ پھر اس عورت نے کہا: یا رسول اللہ! حج کے بارے میں اللہ کا جو اپنے بندوں پر فریضہ ہے وہ میرے والد پر لاگو ہوتا ہے، جو بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اور سواری پر سیدھے نہیں بیٹھ سکتے۔ کیا اگر میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو ان کا حج ادا ہو جائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ہو جائے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6228]
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابوعامر نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”راستوں پر بیٹھنے سے بچو! صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری یہ مجالس تو بہت ضروری ہیں، ہم وہیں روزمرہ گفتگو کیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جب تم ان مجلسوں میں بیٹھنا ہی چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کیا کرو یعنی راستے کو اس کا حق دو۔ صحابہ نے عرض کیا: راستے کا حق کیا ہے یا رسول اللہ! فرمایا (غیر محرم عورتوں کو دیکھنے سے) نظر نیچی رکھنا، راہ گیروں کو نہ ستانا، سلام کا جواب دینا، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6229]
اور اللہ پاک نے (سورۃ نساء میں) فرمایا «وإذا حييتم بتحية فحيوا بأحسن منها أو ردوها»”اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بڑھ کر اچھا جواب دو یا (کم از کم) اتنا ہی جواب دو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: Q6230]
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے شقیق نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ہم (ابتداء اسلام میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو کہتے ”سلام ہو اللہ پر اس کے بندوں سے پہلے، سلام ہو جبرائیل پر، سلام ہو میکائیل پر، سلام ہو فلاں پر، پھر (ایک مرتبہ) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اللہ ہی سلام ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو «التحيات لله، والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين.» الخ پڑھا کرے۔ کیونکہ جب وہ یہ دعا پڑھے گا تو آسمان و زمین کے ہر صالح بندے کو اس کی یہ دعا پہنچے گی۔ «أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.» اس کے بعد اسے اختیار ہے جو دعا چاہے پڑھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6230]
ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”چھوٹا بڑے کو سلام کرے، گزرنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرے اور چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو پہلے سلام کرے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6231]
ہم سے محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مخلد نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے زیاد نے خبر دی، انہوں نے عبدالرحمٰن بن زید کے غلام ثابت سے سنا، اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے بڑی تعداد والوں کو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6232]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
6. بَابُ تَسْلِيمِ الْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ:
6. باب: چلنے والا پہلے بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے زیاد نے خبر دی، انہیں ثابت نے خبر دی جو عبدالرحمٰن بن زید کے غلام ہیں۔ اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو اور چھوٹی جماعت پہلے بڑی جماعت کو سلام کرے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6233]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
7. بَابُ تَسْلِيمِ الصَّغِيرِ عَلَى الْكَبِيرِ:
7. باب: کم عمر والا پہلے بڑی عمر والے کو سلام کرے۔
اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے صفوان بن سلیم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”چھوٹا بڑے کو سلام کرے، گزرنے والا بیٹھنے والے کو اور کم تعداد والے بڑی تعداد والوں کو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ/حدیث: 6234]