محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: وہ (سلف) کہتے تھے: اپنے دوست کی اس طرح تکریم نہ کرو جس سے وہ مشقت میں پڑ جائے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الزِّيَارَةِ/حدیث: 344]
تخریج الحدیث: «صحيح الإسناد موقوف: أخرجه أحمد فى الزهد: 1772 و المروزي فى البر و الصلة: 145 و ابن وهب فى الجامع: 186 و البيهقي فى شعب الإيمان: 8672»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اپنے بھائی کی تیمار داری کرتا ہے یا اس سے ملاقات کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے فرماتا ہے: تو بہت اچھے حال میں ہے، اور تیرا چلنا اچھا ہے، اور تو نے جنت میں گھر بنا لیا ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الزِّيَارَةِ/حدیث: 345]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه الترمذي، كتاب البر و الصلة، باب ماجاء فى زيارة الإخوان: 2008 و ابن ماجه: 1443 - انظر الصحيحة: 2632»
سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ ہم سے ملنے کے لیے مدائن سے پیدل شام آئے۔ وہ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے اور پاجامہ پہن رکھا تھا جس کے پانچے چڑھے ہوئے تھے۔ ابن شوذب نے کہا: سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھا گیا کہ انہوں نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی۔ سر منڈا ہوا تھا اور کان لٹکے ہوئے اور بڑے بڑے تھے۔ ان سے کہا گیا: آپ نے اپنا حلیہ بگاڑ رکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اصل اچھائی تو آخرت کی اچھائی ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الزِّيَارَةِ/حدیث: 346]
تخریج الحدیث: «بعض الحديث حسن: أخرجه أحمد فى الزهد: 842 و ابن أبى الدنيا فى التواضع: 149 و أبونعيم فى الحلية: 199/1 - الصحيحة: 3198»
قال الشيخ الألباني: بعض الحديث حسن
160. بَابُ مَنْ زَارَ قَوْمًا فَطَعِمَ عِنْدَهُمْ
160. جس کی زیارت کے لیے جائے اس کے پاس کھانا کھانے کا بیان
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ایک گھرانے کو شرف زیارت بخشا تو ان کے ہاں کھانا کھایا۔ جب واپس تشریف لانے لگے تو گھر میں ایک جگہ کے بارے (صاف کرنے کا) حکم دیا۔ چنانچہ ایک چٹائی پر چھینٹے مار کر اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بچھا دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی اور ان کے لیے دعا کی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الزِّيَارَةِ/حدیث: 347]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب الزيارة: 6080»
حضرت ابوخلدہ سے روایت ہے کہ ابوامیہ عبدالکریم ابوالعالیہ کے پاس گئے تو انہوں نے اونی کپڑے پہن رکھے تھے۔ ابوالعالیہ نے فرمایا: یہ تو راہبوں کا لباس ہے۔ مسلمانوں کا تو یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے پاس جاتے تو بن سنور کر جاتے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الزِّيَارَةِ/حدیث: 348]
تخریج الحدیث: «صحيح مقطوع: أخرجه ابن سعد فى الطبقات: 115/7 و أبونعيم فى الحلية: 217/2»
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبداللہ سے روایت ہے کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے میرے لیے موٹے ریشم کا ایک جبہ نکالا جس کے گلے پر بالشت برابر ریشم کا کام تھا اور چاکوں پر بھی ریشم لگا ہوا تھا۔ انہوں نے فرمایا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفود کی آمد کے موقعہ پر اور جمعہ کے دن زیب تن کرتے تھے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الزِّيَارَةِ/حدیث: 348M]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه مسلم، كتاب اللباس و الزينة: 2069 و أبوداؤد: 4054 و ابن ماجه: 3594»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے موٹے ریشم کا ایک جبہ (فروخت ہوتے) دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے اور عرض کیا: (اللہ کے رسول!) آپ یہ جبہ خرید لیں اور جمعہ کے دن اور (ملاقاتی) وفود کی آمد کے موقع پر زیب تن فرما لیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یہ تو صرف وہ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ جبے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو، ایک سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اور ایک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے یہ مجھے بھیج دیا ہے حالانکہ آپ نے ایسے جبے کے بارے میں جو فرمایا ہے میں وہ آپ سے سن چکا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے بیچ دو یا اس کے ذریعے اپنی کوئی ضرورت پوری کر لو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الزِّيَارَةِ/حدیث: 349]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجمعة، باب يلبس أحسن ما يجد: 886، 6081 و مسلم: 2068 و النسائي: 5300 و أبوداؤد: 1076»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص اپنے کسی بھائی سے ملنے کے لیے دوسری بستی میں گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں ایک فرشتہ مقرر کر دیا۔ اس نے پوچھا: تم کہاں جا رہے ہو؟ اس آدمی نے کہا: اس بستی میں میرا ایک بھائی رہتا ہے (اس کی ملاقات کا ارادہ ہے۔) فرشتے نے پوچھا: کیا اس کے کسی احسان کی وجہ سے اسے ملنے جا رہے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، میں اس سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں (جس وجہ سے ملاقات کے لیے جا رہا ہوں)، فرشتے نے کہا: میں تیرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے قاصد بن کر آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ اسی طرح محبت کرتا ہے جس طرح تو نے اس شخص سے محبت کی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الزِّيَارَةِ/حدیث: 350]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة: 38، 2567 - انظر الصحيحة: 1044»
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر کوئی شخص کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے اعمال کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر! تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔“ میں نے عرض کیا: میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر! تم جس سے محبت کرتے ہو (روز قیامت) اسی کے ساتھ ہو گے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الزِّيَارَةِ/حدیث: 351]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب، باب الرجل يحب الرجل على خير يراه: 5126 - انظر صحيح الترغيب: 3035»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟“ اس نے عرض کیا: میں نے اس کے لیے کوئی بڑی تیاری نہیں کی، البتہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اسلام کے بعد میں نے مسلمانوں کو اس دن سے زیادہ خوش نہیں دیکھا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الزِّيَارَةِ/حدیث: 352]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6167 و مسلم: 2639 و أبوداؤد: 5127 و الترمذي: 2385»