سیدنا عبداللہ بن یزید خطمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نیکی صدقہ ہے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْمَعْرُوفِ/حدیث: 231]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 18741 و المتن فى الصحيحين انظر حديث: 224 - الصحيحة: 2040»
سیدنا انس بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی چیز لائی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”یہ فلاں خاتون کو دے آؤ کیونکہ وہ خدیجہ کی دوست تھی، یہ فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْمَعْرُوفِ/حدیث: 232]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه الطبراني فى الكبير: 12/23 و الحاكم: 175/4 و ابن حبان: 7007 و الدولابي فى الذرية: 40 - الصحيحة: 2818»
حضرت عمرو بن ابوقرہ کندی سے روایت ہے کہ میرے والد نے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو اپنی بہن سے شادی کرنے کی پیش کش کی تو انہوں نے انکار کر دیا اور اپنی آزاد کردہ لونڈی بقرہ سے نکاح کر لیا، پھر ابوقرہ کو معلوم ہوا کہ سیدنا سلمان اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہما کے مابین کوئی ناراضی ہے۔ وہ ان کے پاس آئے تو معلوم ہوا کہ وہ سبزیوں کے کھیت میں گئے ہیں۔ وہ ادھر ہی روانہ ہو گئے۔ ان سے ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ ان کے پاس ایک ٹوکری ہے جس میں سبزیاں ہیں۔ انہوں نے لاٹھی کو زنبیل کے کڑے میں ڈال کر کندھے پر رکھا ہوا ہے۔ ابوقرہ نے کہا: اے ابوعبداللہ! تمہارے اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کیا رنجش ہے؟ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے اس پر یہ آیت پڑھی: «﴿وَکَانَ الإِنْسَانُ عَجُولاً﴾»”انسان بڑا جلد باز ہے۔“ پھر دونوں چلے اور سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے گھر آئے۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوئے اور سلام کہا، پھر ابوقرہ کو اجازت دی تو وہ بھی داخل ہو گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ دروازے پر ایک چادر رکھی ہوئی ہے اور اس کے سر کے قریب چند کچی اینٹیں رکھی ہوئی ہیں اور پاس زین کی طرح ایک موٹا سا گدا رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے (مجھ سے) فرمایا: اپنی باندی کے بستر پر بیٹھ جاؤ جو وہ اپنے لیے بچھاتی ہے۔ پھر باتیں شروع کر دیں اور بتایا کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو وہ باتیں بیان کرتے تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے بارے میں غصے میں فرما دیتے تھے۔ میرے پاس لوگ آتے ہیں اور اس کے متعلق پوچھتے ہیں تو میں کہہ دیتا ہوں: سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان باتوں کا زیادہ علم ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ اور مجھے یہ پسند نہ تھا (کہ ان باتوں کی وجہ سے جو ان میں بیان کرنے کی نہیں ہیں) لوگوں کے درمیان کینہ پیدا ہو۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی گیا اور کہا کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ تمہاری باتوں کی تصدیق کرتے ہیں نہ انہیں جھٹلاتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا: اے سلمان بن ام سلمان! (تم نے ایسے کہا ہے)، تو میں نے کہا: اے حذیفہ بن ام حذیفہ! تم ایسی باتیں بیان کرنے سے رک جاؤ ورنہ میں تمہارے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھوں گا۔ جب میں نے انہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نام لے کر ڈرایا تو وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: (اے اللہ)”میں بھی اولاد آدم سے ہوں، چنانچہ میں نے اپنی امت کے جس فرد پر بھی کوئی لعنت کی یا اسے برا بھلا کہا جبکہ وہ اس کا مستحق نہ تھا تو اس کے لیے اسے رحمت بنا دے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْمَعْرُوفِ/حدیث: 234]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أبوداؤد، كتاب السنة، باب فى النهي عن سب أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: 4659 و أحمد: 437/5 - من حديث زائدة به الصحيحة: 1758»
تخریج الحدیث: «ضعيف: رواه ابن أبى الدنيا فى مجابو الدعوة: 38 و الالكائي فى كرامات الأولياء: 98 و المحامل فى أماليه: 303 و رواه الطبراني فى الدعاء: 985»
حضرت ابوسلمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ میرے دوست تھے۔ میں نے ان سے کہا: ہمیں کھجوروں کے باغ میں کیوں نہیں لے چلتے؟ چنانچہ وہ ساتھ چل دیے اور ان پر ان کی ایک چادر تھی۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْمَعْرُوفِ/حدیث: 236]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الاذان، باب السجود على الأنف فى الطين: 813 و مسلم: 1167 و صحيح أبى داؤد: 1251»
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو درخت پر چڑھنے اور کوئی چیز (مسواک وغیرہ) لانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی باریک پنڈلیاں دیکھ کر ہنسنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کیوں ہنستے ہو؟ یقیناً عبداللہ کی ٹانگ (روز قیامت) میزان میں احد پہاڑ سے بھی وزنی ہو گی۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْمَعْرُوفِ/حدیث: 237]
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره: الصحيحة: 3192 - أخرجه أحمد: 920 و ابن أبى شيبة: 114/12 و ابن سعد: 155/3 و أبويعلى: 539»