سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کی شرارتوں سے اس کے ہمسائے بے خوف (محفوظ) نہیں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 121]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الإيمان، باب تحريم إيذاء الجار: 46 و الحاكم فى المستدرك: 10/1 و أحمد: 373/2»
عمرو بن معاذ اشہلی اپنی دادی (حواء بنت یزید) رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے مومن عورتو! تم میں سے کوئی عورت اپنی پڑوسن کے لیے ہدیے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا جلا ہوا پایہ ہی ہو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 122]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مالك: 931/2 و أحمد: 16611 و الدارمي: 1714 و ابن أبى عاصم فى الآحاد: 3390 و البيهقي فى شعب الإيمان: 3462 و الطبراني فى الكبير: 220/24»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے مسلمان عورتو! اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے لیے (ہدیہ دینا یا لینا) حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا کھر ہی ہو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 123]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب لا تحقرن جارة لجارتها: 6017 و مسلم: 1030»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرا ایک پڑوسی ہے جو مجھے ایذا دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ، اپنا سامان (گھر سے) نکال کر راستے پر رکھ دو۔“ وہ گیا اور اپنا سامان نکال کر راستے پر رکھ دیا۔ لوگ اس کے پاس آئے اور پوچھا: تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا: میرا پڑوسی مجھے تکلیف دیتا ہے۔ میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ”جاؤ، اور اپنا سامان (گھر سے) نکال کر راستے پر رکھ دو۔“(لوگوں نے یہ سنا) تو کہنے لگے: اللہ اس پر لعنت کرے، اللہ اسے رسوا کرے۔ یہ بات جب ہمسائے تک پہنچی تو وہ اس کے پاس آیا اور کہا: اپنے گھر میں لوٹ آو، اللہ کی قسم میں تمہیں کبھی تکلیف نہیں دوں گا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 124]
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب فى حق الجوار: 5153 و ابن حبان: 520 و أبويعلي: 6630 و الحاكم: 160/4 و البيهقي فى شعب الإيمان: 9547 - صحيح الترغيب: 2559»
سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اپنے پڑوسی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا سامان اٹھاؤ اور راستے پر رکھ دو، جو گزرے گا اسے لعن طعن کرے گا۔“(اس نے ایسے ہی کیا) تو جو بھی وہاں سے گزرتا اسے برا بھلا کہتا۔ وہ (تنگ کرنے والا) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یہ لوگ میرے ساتھ کیا برتاؤ کر رہے ہیں؟ (کہ ہر شخص مجھ پر لعنت کر رہا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان کی لعنت کے ساتھ ساتھ اللہ کی لعنت بھی تجھ پر ہے۔“(اس نے دوبارہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکایت کرنے والے سے فرمایا: ”(اب اپنا سامان اٹھا لو) تیری خلاصی ہو گئی۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 125]
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه الحاكم: 166/4 و البيهقي فى شعب الإيمان: 9548 و الطبراني فى الكبير: 134/22 - صحيح الترغيب: 2559»
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے پڑوسی کی زیادتیوں کی شکایت کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ وہ رکن اور مقام کے درمیان بیٹھا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اس شخص نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفید پوش شخص کے سامنے مقام کے پاس کھڑے ہیں جہاں پر (اس زمانے میں) نماز جنازہ ادا کی جاتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے تو اس شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ کے سامنے وہ سفید پوش شخص کون تھا جسے میں نے کھڑے دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے اسے دیکھا ہے؟“ اس نے کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے بہت خیر دیکھی۔ وہ میرے رب کے فرستاده جبرائیل علیہ السلام تھے۔ وہ مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خدشہ پیدا ہوا کہ وہ اسے وارث قرار دے دیں گے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 126]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه عبد بن حميد: 1129 و البزار [كشف الاستار] : 1897، لكن جملة الوصية بالجار و بعض القصة صحيحة، والجملة تقدمت عن عائشة وغيرها: 101، 104، 105 - الإرواء: 891»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
69. بَابُ مَنْ آذَى جَارَهُ حَتَّى يَخْرُجَ
69. جس نے ہمسائے کو اتنی تکلیف دی کہ وہ اپنے گھر سے نکل گیا
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جو دو اشخاص تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرتے ہیں، پھر ان دونوں میں سے ایک فوت ہو جاتا ہے (یا پھر اس صورت میں کہ) دونوں مر جائیں اور وہ ابھی تک ایک دوسرے سے قطع تعلقی اختیار کیے ہوں تو وہ دونوں تباہ ہو گئے، یعنی عذاب اور جہنم کے مستحق ٹھہرے۔ اور کوئی شخص جو اپنے پڑوسی پر ظلم و زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اس ظلم و زیادتی سے تنگ آ کر گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے، تو وہ شخص بھی یقیناً تباہ ہو گیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 127]
حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس تھا اور ان کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا۔ انہوں نے فرمایا: اے لڑکے! جب اس کام (گوشت وغیرہ بنانے) سے فارغ ہو جائے تو سب سے پہلے ہمارے یہودی ہمسائے کو گوشت دینا۔ حاضرین قوم میں سے کسی آدمی نے کہا: یہودی! (کو ہدیہ دلا رہے ہیں)، اللہ آپ کی اصلاح کرے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یقیناً میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑوسی کے متعلق وصیت کرتے ہوئے سنا حتی کہ ہمیں خدشہ پیدا ہو گیا یا ہمیں خیال گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اسے وارث قرار دے دیں گے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 128]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب فى حق الجوار: 5152 و الترمذي: 1943 و أحمد: 6496 و الحميدي: 604 و ابن أبى الدنيا فى مكارم الاخلاق: 321 و ابن شيبة: 25417 و المروزي فى البر و الصلة: 216 و البيهقي فى شعب الإيمان: 9565 و فى الآداب: 87 - الإرواء: 891»