الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


الادب المفرد
كِتَابُ الْجَارِ
كتاب الجار
69. بَابُ مَنْ آذَى جَارَهُ حَتَّى يَخْرُجَ
69. جس نے ہمسائے کو اتنی تکلیف دی کہ وہ اپنے گھر سے نکل گیا
حدیث نمبر: 127
حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَرْطَاةُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ، يَعْنِي أَبَا عَامِرٍ الْحِمْصِيَّ، قَالَ‏:‏ كَانَ ثَوْبَانُ يَقُولُ‏:‏ مَا مِنْ رَجُلَيْنِ يَتَصَارَمَانِ فَوْقَ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ، فَيَهْلِكُ أَحَدُهُمَا، فَمَاتَا وَهُمَا عَلَى ذَلِكَ مِنَ الْمُصَارَمَةِ، إِلاَّ هَلَكَا جَمِيعًا، وَمَا مِنْ جَارٍ يَظْلِمُ جَارَهُ وَيَقْهَرُهُ، حَتَّى يَحْمِلَهُ ذَلِكَ عَلَى أَنْ يَخْرُجَ مِنْ مَنْزِلِهِ، إِلاَّ هَلَكَ‏.‏
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جو دو اشخاص تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرتے ہیں، پھر ان دونوں میں سے ایک فوت ہو جاتا ہے (یا پھر اس صورت میں کہ) دونوں مر جائیں اور وہ ابھی تک ایک دوسرے سے قطع تعلقی اختیار کیے ہوں تو وہ دونوں تباہ ہو گئے، یعنی عذاب اور جہنم کے مستحق ٹھہرے۔ اور کوئی شخص جو اپنے پڑوسی پر ظلم و زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اس ظلم و زیادتی سے تنگ آ کر گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے، تو وہ شخص بھی یقیناً تباہ ہو گیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْجَارِ/حدیث: 127]
تخریج الحدیث: «صحيح:» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 127 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 127  
فوائد ومسائل:
(۱)ثوبان رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص تھے۔ ان کا اصل وطن یمن تھا۔ قیدی بن کر آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خرید کر آزاد کر دیا اور انہیں اپنے وطن جانے کی اجازت دی لیکن انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنا پسند کیا۔
(۲) کسی مسلمان کے ساتھ تین دن سے زیادہ ناراض ہوکر قطع تعلقی کرنا حرام ہے اور اس حرام کے مرتکب کی سزا دوزخ ہے اگر وہ اسی حالت میں مرجاتا ہے اور اپنے گناہ سے تائب نہیں ہوتا۔ تاہم اللہ کی خاطر کسی شخص سے تین دن سے زیادہ بھی قطع تعلقی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً کوئی شخص بے نماز ہے یا اللہ کا نافرمان ہے اور سمجھانے کے باوجود گناہ کو ترک نہیں کرتا تو اس سے قطع تعلقی جائز ہوگی۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کا بائیکاٹ کیا اور کرایا تھا اور اس کا دورانیہ پچاس دن تھا۔ (بخاري:۴۴۱۸)
(۳) ہمسایوں کے حقوق کی بابت تفصیل گزر چکی ہے۔ یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ ظلم کسی عام شخص پر کرنا بھی بڑی شناعت کا کام ہے چہ جائیکہ انسان پڑوسی پر ظلم کرے جو انسان کے حسن سلوک کا دیگر لوگوں سے زیادہ مستحق ہے۔ جو شخص کسی کا دنیا کا سکون برباد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا آخرت کا سکون برباد کر دے گا اور وہ جہنم رسید ہوگا۔
(۴) انسان اپنے برے اعمال کی وجہ سے جہنم رسید ہوگا۔ اس لیے اسے معصیت اور نافرمانی کے کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے، بالخصوص حقوق العباد کے بارے میں ہر طرح کے ظلم و کوتاہی سے بچنا چاہیے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 127