عبدالرحمٰن بن حبیب بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے دریافت کیا: تمہارا تعلق کس خاندان سے ہے؟ میں نے کہا: بنوتمیم کے خاندان تیم سے۔ انہوں نے فرمایا: خود ان سے یا ان کے آزاد کردہ سے؟ میں نے کہا: ان کے آزاد کردہ سے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو نے یہ کیوں نہیں کہا کہ میں ان (بنو تمیم) کا آزاد کردہ ہوں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ مَوَالِي/حدیث: 74]
سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا: ”اپنی قوم (قریش) کو جمع کرو۔“ تو انہوں نے انہیں جمع کیا۔ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے باہر جمع ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا: میں نے اپنی قوم کو آپ کے پاس جمع کر دیا ہے۔ اس (اجتماع) کی خبر انصار کو ہوئی تو انہوں نے کہا: لگتا ہے قریش کے بارے میں کوئی (خصوصی) وحی نازل ہوئی ہے، تو ان میں سے بھی سننے اور دیکھنے والے جمع ہو گئے کہ انہیں کیا کہا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) باہر تشریف لائے اور ان کے سامنے کھڑے ہو گئے، پھر فرمایا: ”کیا تم میں قریش کے علاوہ بھی کوئی ہے؟“ انہوں نے کہا: ہاں! ہمارے اندر ہمارے حلیف، ہمارے بھانجے اور موالی (آزاد کردہ) بھی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے حلیف بھی ہم میں سے ہیں، ہمارے بھانجے بھی ہم میں سے ہیں، اور آزاد کردہ بھی ہمی سے ہیں۔ اور تم سنو! بے شک تم میں سے میرے دوست وہ ہیں جو متقی ہیں، لہٰذا اگر تم متقی ہو تو بہت خوب ورنہ دیکھ لو (ایسا نہ ہو کہ) قیامت کے روز لوگ اپنے اپنے اعمال لے کر حاضر ہوں اور تم (گناہوں کا) بوجھ لے کر حاضر ہو تو تم سے روگردانی اختیار کر لی جائے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو!“ ...... اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ قریش کے سروں پر رکھے۔ ”اے لوگو! بے شک قریش اہل امانت ہیں، جس نے ان پر زیادتی کی اللہ تعالیٰ اسے ناک کے بل اوندھے منہ (جہنم میں) گرا دے گا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ ارشاد فرمایا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ مَوَالِي/حدیث: 75]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أحمد: 18993 و معمر فى الجامع: 19897 و ابن أبى شيبه: 26484 و الطبراني فى الكبير: 45/5 و الحاكم: 6952 - الصحيحة: 1688، الضعيفة: 1716»