ابو العباس احمد بن محمد بن عیسیٰ القاضی البرتی نے کہا: سن 342 ہجری ذوالحجہ مسجد دارقطن میں ہمیں ابوسہل احمد بن محمد بن عبداللہ بن زیاد القطان نے حدیث بیان کی، اس طرح کہ ان پر پڑھا جا رہا تھا اور میں سن رہا تھا۔ [مسند عبدالرحمن بن عوف/حدیث: Q1]
1. ما رواه عبد الله بن عباس عن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنهما
1. وہ حدیث جسے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نےعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلے، جب سرخ مقام پر پہنچے تو انہیں امیر لشکر ابوعبیدہ اور ان کے ساتھی ملے۔ انہوں نے آپ کو بتایا کہ شام میں وباء طاعون پھیل چکی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے پاس پہلے مہاجرین کو بلاؤ، آپ نے انہیں بلا کر ان نے مشورہ طلب کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں وباء پھیل چکی ہے تو انہوں نے اس پر اختلاف کیا، بعض نے کہا کہ آپ ایک ایسے کام کے لیے نکلے ہیں جس سے واپسی ہم اچھی نہیں سمجھتے۔ (جبکہ) بعض نے کہا کہ آپ کے ساتھی باقی ماندہ لوگ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں تو ہم اچھا نہیں سمجھتے کہ آپ انہیں بیماری والی جگہ پر لے جائیں۔ پھر کہا کہ میرے پاس انصار کو بلاؤ، انہوں نے انصار کو بلایا تو آپ نے ان سے بھی مشورہ طلب کیا، تو انہوں نے بھی مہاجرین والا راستہ اختیار کیا اور اختلاف رائے کیا، آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے آپ لوگ چلے جاؤ، پھر کہا کہ یہاں فتح مکہ کے مہاجرین قریش کے جو شیوخ (بوڑھے آدمی) موجود ہیں انہیں بلاؤ، ان میں سے دو آدمیوں نے کہا: ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور وباء والی جگہ پر نہ لے جائیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں واپس جانے کا اعلان کر دیا۔ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے فرار حاصل کرو گے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوعبیدہ کاش تم یہ بات نہ کہتے، جی ہاں! ہم اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں لیکن اللہ عزوجل کی تقدیر کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے اگر آپ کا اونٹ کسی ایسی وادی میں اتر ے جس کے دو کنارے ہوں: ایک سرسبز اور دوسرا خشک بنجر، اور تم سرسبز کنارے میں اسے چراؤ گے تو کیا یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نہیں؟ (اتنے میں) حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور وہ کسی کام کی غرض سے آئے تھے۔ انہوں نے حدیث بیان کی کہ ایک دن ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اشارہ کر کے فرمایا:”یہ رب العالمین کی طرف سے کتاب ہے جس میں اہل جنت، ان کے آباء کے نام اور قبائل شروع سے لے کر آخر تک موجود ہیں (اب) ان میں نہ زیادتی کی جا سکتی ہے اور نہ کمی۔ اور یہ رب العالمین کی طرف سے کتاب ہے جس میں اہل جہنم کے نام، ان کے آباء اور قبائل کے نام شروع سے لے کر آخر تک موجود ہیں، نہ ان میں زیادتی اور نہ کمی کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ (ان کاموں سے) فارغ ہو چکا ہے۔ ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک جہنم میں۔ جو اہل جنت میں سے ہے اس کا خاتمہ اہل جنت کے عمل پر ہو گا اگرچہ اس نے ہر قسم کا عمل کیا ہو۔ اور جو اہل جہنم میں سے ہے، اس کا خاتمہ اہل جہنم کے ساتھ ہو گا اگرچہ اس نے ہر قسم کا عمل کیا ہو۔“[مسند عبدالرحمن بن عوف/حدیث: 1]
1. ما رواه عبد الله بن عباس عن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنهما
1. وہ حدیث جسے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نےعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ شام سے واپس آئے تو میں ان کے پاس گیا، وہ اپنے خیمے میں قیلولہ کر رہے تھے۔ میں نے خیمے کے باہر ان کا انتظار کیا، جب آپ اپنی نیند سے بیدار ہوئے تو میں نے انہیں یہ الفاظ کہتے سنا: اے اللہ! ” سرغ“ سے واپس آنے کی غلطی کی وجہ سے مجھے معاف فرما دینا۔ [مسند عبدالرحمن بن عوف/حدیث: 2]
1. ما رواه عبد الله بن عباس عن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنهما
1. وہ حدیث جسے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نےعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث کو (مدنظر) رکھتے ہوئے لوگوں کو واپس لے گئے۔ [مسند عبدالرحمن بن عوف/حدیث: 3]
1. ما رواه عبد الله بن عباس عن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنهما
1. وہ حدیث جسے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نےعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز کے بارے میں مذاکرہ کر رہا تھا، اچانک ہمارے پاس عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا: ” کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ہم نے کہا:، کیوں نہیں، انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا: جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور اسے رکعات کم پڑھنے کا شک پڑ جائے تو وہ نماز پڑھتا رہے حتٰی کہ اسے زیادتی کا یقین ہو جائے یعنی اسے یقین ہو جائے کہ زیادہ رکعات ہو گئی ہیں۔ [مسند عبدالرحمن بن عوف/حدیث: 4]
2. حديث عبدالله بن عامر بن ربيعة، عن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہما
2. عبدالله بن عامر بن ربيعہ رضی اللہ عنہ کی عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ حدیث
عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے بیان کیا، کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو (سفر مکہ میں)(اونٹوں کو حدی بآواز بلند ہانکتے) سنا، تو رات کے کسی حصے میں ان کے ساتھ مکہ داخل ہوئے، جب صبح ہوئی تو انہیں موزے پہنے دیکھا، تو فرمایا: آپ نے موزے پہن رکھے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں نے ایسی شخصیت کی موجودگی میں انہیں پہنا جو آپ سے بہتر تھے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ [مسند عبدالرحمن بن عوف/حدیث: 5]
2. حديث عبدالله بن عامر بن ربيعة، عن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہما
2. عبدالله بن عامر بن ربيعہ رضی اللہ عنہ کی عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ حدیث
عبداللہ بن عامر بن ربیعہ اور سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما دونوں نے بیان کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے لوگوں کو ”سرغ“ سے واپس ہٹا لیا، جب عمر رضی اللہ عنہ لوٹ آئے تو لشکروں کے عاملین اپنے کاموں کی طرف لوٹ گئے۔ [مسند عبدالرحمن بن عوف/حدیث: 6]
3. حديث انس بن مالك، عن عبدالرحمٰن رضي الله عنهما
3. سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے حدیث
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان اور سعد بن الربیع الانصاری رضی اللہ عنہ کے درمیان رشتہ اخوت قائم کیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس دو بیویاں تھیں، انہوں نے انہیں پیشکش کی کہ وہ ان کے گھر بار اور مال سے آدھا حصہ بانٹ لیں (یعنی ایک بیوی اور آدھا مال) لے لیں۔ چنانچہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کے اہل و مال میں برکت دے، مجھے بازار کی راہ دکھا دیں، اگلے دن وہ بازار گئے اور پنیر اور گھی میں کچھ نفع کمایا، پھر ایک دن انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ان پر حجلہ عروسی کے نشانات تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”اے عبدالرحمٰن کیا معاملہ ہے؟“ انہوں نے کہا:، اللہ کے رسول! میں نے انصار کی ایک عورت کے ساتھ شادی کر لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:”اسے کتنا مہر پیش کیا؟“ انہوں نے کہا: کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔“[مسند عبدالرحمن بن عوف/حدیث: 7]
3. حديث انس بن مالك، عن عبدالرحمٰن رضي الله عنهما
3. سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے حدیث
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن الربیع الانصاری کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ حضرت سعد کے پاس دو بیویاں تھیں، تو انہوں نے پیشکش کی کہ میرے گھر بار اور مال سے آدھا بانٹ لیں، مگر سیدنا عبدالرحمٰن نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کے اہل و مال میں برکت دے، آپ میری بازار کی طرف راہنمائی کر دیں، آپ نے بازار میں آ کر پنیر اور گھی سے بہت نفع کمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ دنوں بعد دیکھا تو ان پر زرد نشانات تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”عبدالرحمٰن کیا معاملہ ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے انصار کی ایک عورت کے ساتھ شادی کر لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اسے کیا مہر دیا“، انہوں نے کہا کہ کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔“[مسند عبدالرحمن بن عوف/حدیث: 8]
3. حديث انس بن مالك، عن عبدالرحمٰن رضي الله عنهما
3. سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے حدیث
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہا کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ مدینہ میں تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن الربیع الانصاری رضی اللہ عنہ کے درمیان رشتہ اخوت قائم کر دیا، انہیں سیدنا سعد الانصاری نے کہا: اے میرے بھائی! میں مدینے والوں میں سے زیادہ مال والا ہوں۔ میرے مال سے آدھا مال لے لیں اور میرے پاس دو بیویاں ہیں جو آپ کو زیادہ پسند لگتی ہے میں اسے آپ کے لیے طلاق دے دیتا ہوں (وہ عدت گزار لے تو آپ اس سے شادی کر لیں)۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کے اہل و مال میں برکت دے، آپ میری منڈی کی طرف راہنمائی کر دیں، تو انہوں نے منڈی کا راستہ بتا دیا، آپ منڈی میں گئے، خرید و فروخت کی اور کچھ پنیر اور گھی کما کر لے آئے۔ آپ اس طرح اللہ نے جتنا چاہا کام کرتے رہے۔ (ایک دفعہ) آپ آئے اور آپ پر حجلہ عروسی کے نشانات تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا: ”یہ کیا ہے“، انہوں نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! میں نے ایک عورت کے ساتھ شادی کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کتنا حق مہر ادا کیا ہے؟“ کہا: کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو“، تو سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے بعد آپ نے مجھے دیکھا، اگر میں پتھر اٹھاتا تو مجھے گمان ہوتا کہ اس کے نیچے سے میں نے سونا اور چاندی اٹھانا ہے۔ [مسند عبدالرحمن بن عوف/حدیث: 9]