عن بريدة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «القضاة ثلاثة: اثنان في النار وواحد في الجنة: رجل عرف الحق فقضى به فهو في الجنة ورجل عرف الحق فلم يقض به وجار في الحكم فهو في النار ورجل لم يعرف الحق فقضى للناس على جهل فهو في النار» رواه الأربعة وصححه الحاكم.
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” قاضی کی تین اقسام ہیں دو دوزخی ہیں اور ایک جنتی۔ ایک وہ شخص جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنتی ہے اور دوسرا وہ جس نے حق کی پہچان کر لی مگر فیصلہ حق کے ساتھ نہ دیا۔ بلکہ فیصلہ میں ظلم کیا وہ دوزخی ہے اور تیسرا وہ جس نے نہ حق کو پہچانا نہ حق کے ساتھ فیصلہ کیا بلکہ اس نے لوگوں میں جہالت و نادانی سے فیصلہ کیا وہ بھی دوزخی ہے۔“ اسے ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1188]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، القضاء، باب في القاضي يخطيء، حديث:3573، والترمذمي، الأحكام، حديث:1322م، وابن ماجه، الأحكام، حديث:2315، والنسائي، في الكبرٰي:3 /462، حديث:5922، والحاكم:4 /90.»
حدیث نمبر: 1189
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من ولي القضاء فقد ذبح بغير سكين» رواه أحمد والأربعة وصححه ابن خزيمة وابن حبان.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس شخص کو منصب قضاء پر فائز کیا گیا (سمجھ لو) کہ اسے بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا۔“ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے۔ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1189]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، القضاء، باب في طلب القضاء، حديث:3571، والترمذي، الأحكام، حديث:1325، وابن ماجه، الأحكام، حديث:2308، والنسائي، في الكبرٰي:3 /462، حديث:5923، وأحمد:2 /230، 365.»
حدیث نمبر: 1190
وعنه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إنكم ستحرصون على الإمارة وستكون ندامة يوم القيامة فنعم المرضعة وبئست الفاطمة» رواه البخاري.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” بیشک تم لوگ ضرور حکومت کی حرص و خواہش کرو گے اور وہ قیامت کے روز باعث ندامت ہو گی۔ پس اچھی ہے دودھ پلانے والی ماں اور بری ہے دودھ چھڑانے والی ماں۔“(بخاری)[بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1190]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأحكام، باب ما يكره من الحرص علي الإمارة، حديث:7148.»
حدیث نمبر: 1191
وعن عمرو بن العاص أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «إذا حكم الحاكم فاجتهد ثم أصاب فله أجران وإذا حكم فاجتهد ثم أخطأ فله أجر» متفق عليه.
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ” جب کوئی حاکم فیصلہ کرتے وقت پوری جدوجہد کرے اور صحیح فیصلہ کرنے میں کامیاب بھی ہو جائے تو اسے دگنا ثواب ملتا ہے اور جب وہ فیصلہ کرنے میں جدوجہد تو پوری کرے مگر صحیح فیصلہ کرنے میں خطا کر جائے تو اسے ایک اجر ملے گا۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1191]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الاعتصام بالكتاب والسنة، باب أجر الحاكم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ، حديث:7352، ومسلم، الأقضية، باب بيان أجر الحاكم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ، حديث:1716.»
حدیث نمبر: 1192
وعن أبي بكرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «لا يحكم أحد بين اثنين وهو غضبان» متفق عليه.
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے ” تم میں سے کوئی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ غصے کی حالت میں نہ کرے۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1192]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأحكام، باب هل يقضي القاضي أو يفتي وهو غضبان؟، حديث:7158، ومسلم، الأقضية، باب كراهة قضاء القاضي وهو غضبان، حديث:1717.»
حدیث نمبر: 1193
وعن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إذا تقاضى إليك رجلان فلا تقض للأول حتى تسمع كلام الآخر فسوف تدري كيف تقضي» قال علي: فما زلت قاضيا بعد. رواه أحمد وأبو داود والترمذي وحسنه ابن المديني وصححه ابن حبان. وله شاهد عند الحاكم: من حديث ابن عباس رضي الله عنهما.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب دو آدمی تیرے پاس فیصلہ کیلئے آئیں تو کسی ایک کے حق میں فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے کی بات نہ سن لو۔ اس سے تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تم نے فیصلہ کیسے کرنا ہے۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اس دن سے میں اسی طرح فیصلہ کرتا ہوں۔ اسے احمد، ابوداؤد، ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے اور ابن مدینی نے اسے قوی کہا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے اور اس کا شاہد حاکم کے ہاں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1193]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، القضاء، باب كيف القضاء، حديث:3582، والترمذي، الأحكام، حديث:1331، وأحمد:1 /143، 150، وابن حبان (الموارد)، حديث:1539، وحديث ابن عباس: أخرجه الحاكم:4 /93 وصححه ووافقه الذهبي وهو حديث حسن.»
حدیث نمبر: 1194
وعن أم سلمة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمع منه فمن قطعت له من حق أخيه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار» متفق عليه.
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” بیشک تم لوگ اپنے جھگڑے میرے پاس لے کر آتے ہو اور تم میں سے بعض اپنے دلائل بڑی خوبی و چرب زبانی سے بیان کرتا ہے تو میں نے جو کچھ سنا ہوتا ہے اسی کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں۔ پس جسے اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دوں تو میں اس کے لئے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1194]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأحكام، باب موعظة الإمام للخصوم، حديث:7169، ومسلم، الأقضية، باب الحكم بالظاهر واللحن بالحجة، حديث:1713.»
حدیث نمبر: 1195
وعن جابر رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «كيف تقدس أمة لا يؤخذ من شديدهم لضعيفهم» رواه ابن حبان، وله شاهد من حديث بريدة عند البزار. وآخر من حديث أبي سعيد عن ابن ماجه.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ” وہ امت کیسے پاک ہو سکتی ہے جس میں طاقتور سے کمزور کا حق نہ دلوایا جا سکے۔“ اسے ابن حبان نے روایت کیا ہے اور بزار کے ہاں بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس کی شاہد ہے اور اس کا ایک اور شاہد ابن ماجہ میں سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1195]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن حبان (الموارد)، حديث:1554، 2584، وابن ماجه، الفتن، حديث:4010 بطوله، وحديث بريدة: أخرجه البزار، كشف الأستار:1 /235، 236، حديث:1596 وهو حديث حسن، وحديث أبي سعيد الخدري: أخرجه ابن ماجه، الفتن، حديث:4011، وهو حديث حسن.»
حدیث نمبر: 1196
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «يدعى بالقاضي العادل يوم القيامة فيلقى من شدة الحساب ما يتمنى أنه لم يقض بين اثنين في عمره» رواه ابن حبان وأخرجه البيهقي ولفظه: «في تمرة» .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے ” قیامت کے روز عادل قاضی کو حساب کیلئے طلب کیا جائے گا وہ اپنے حساب کی شدت کو محسوس کر کے آرزو کرے گا کہ کاش وہ دنیا میں دو شخصوں کے درمیان اپنی عمر میں ایک فیصلہ بھی نہ کرتا۔“ اسے حبان نے روایت کیا ہے اور بیہقی نے اس کو نقل کیا ہے۔ اس میں اضافہ ہے کہ ” کبھی ایک کھجور کا بھی فیصلہ نہ کرتا۔“[بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1196]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن حبان (الموارد)، حديث:1563، والبيهقي:10 /96، وأحمد:6 /75، حسنه الهيثمي في مجمع الزوائد:4 /192، وأشار المنذري إلي أنه حسن، الترغيب والترهيب: 3 /157، ابن العلاء وصالح بن سرج وثقهما ابن حبان وحده من أئمة الجرح والتعديل فهما مستوران.»
حدیث نمبر: 1197
وعن أبي بكرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة» رواه البخاري.
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ایسی قوم ہرگز فلاح نہیں پا سکتی جو عورت کو اپنا حاکم و فرمانروا بنا لے۔“(بخاری)[بلوغ المرام/كتاب القضاء/حدیث: 1197]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، المغازي، باب كتاب النبي صلي الله عليه وسلم، إلي كسرٰي و قيصر، حديث:4425.»