وعن أنس أن الربيع بنت النضر عمته كسرت ثنية جارية فطلبوا إليها العفو فأبوا فعرضوا الأرش فأبوا فأتوا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فأبوا إلا القصاص فأمر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بالقصاص، فقال أنس بن النضر: يا رسول الله أتكسر ثنية الربيع؟ لا والذي بعثك بالحق لا تكسر ثنيتها فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «يا أنس كتاب الله القصاص» فرضي القوم فعفوا فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إن من عباد الله من لو أقسم على الله لأبره» . متفق عليه واللفظ للبخاري.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کے دانت توڑ دئیے۔ ربیع کے رشتہ داروں نے اس سے معافی طلب کی تو انہوں نے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے دیت دینے کی پیش کش کی۔ اسے بھی انہوں نے رد کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں آئے اور قصاص کا مطالبہ کیا اور قصاص کے سوا کسی بھی چیز کو لینے سے انکار کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا فیصلہ فرما دیا۔ یہ سن کر سیدنا انس بن نضر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ربیع کا دانت توڑا جائے گا؟ نہیں، اس ذات اقدس کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اے انس! اللہ کا نوشتہ تو قصاص ہی ہے۔ اتنے میں وہ لوگ اس پر رضامند ہو گئے اور پھر معافی دے دی۔“ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا فرما دیتا ہے۔“(بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1003]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصلح، باب الصلح في الدية، حديث:2703، ومسلم، القسامة، باب إثبات القصاص في الأسنان وما في معناها، حديث:1675.»
حدیث نمبر: 1004
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من قتل في عميا أو رميا بحجر أو سوط أو عصا فعقله عقل الخطأ ومن قتل عمدا فهو قود ومن حال دونه فعليه لعنة الله» أخرجه أبو داود والنسائي وابن ماجه بإسناد قوي.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص اندھا دھند لڑائی میں قتل ہو جائے یا پتھر پھینکنے سے قتل ہو جائے یا کوڑے اور لاٹھی سے مر جائے تو اس کی دیت، خطا کی دیت ہو گی۔ جو شخص عمداً قتل کیا جائے گا تو اس کا قصاص ہے اور جو شخص قصاص لینے میں حائل ہوا تو ایسے شخص پر اللہ کی لعنت ہے۔“ اس حدیث کو ابوداؤد اور نسائی نے قوی سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1004]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الديات، باب من قتل في عميا بين قوم، حديث:4539، والنسائي، القسامة، حديث:4793، وابن ماجه، الديات، حديث:2635.»
حدیث نمبر: 1005
وعن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «إذا أمسك الرجل الرجل وقتله الآخر يقتل الذي قتل ويحبس الذي أمسك» رواه الدارقطني موصولا ومرسلا وصححه ابن القطان ورجاله ثقات. إلا أن البيهقي رجح المرسل.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب ایک آدمی دوسرے آدمی کو پکڑ رکھے اور دوسرا آدمی پکڑے ہوئے آدمی کو قتل کر دے تو قاتل کو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کر دیا جائے گا۔“ اسے دارقطنی نے موصولاً اور مرسلاً روایت کیا ہے اور ابن قطان نے اسے صحیح قرار دیا۔ اس کے راوی ثقہ ہیں۔ مگر بیہقی نے اس کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1005]
وعن عبد الرحمن بن البيلماني أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قتل مسلما بمعاهد وقال: «أنا أولى من وفى بذمته» أخرجه عبد الرزاق مرسلا ووصله الدارقطني بذكر ابن عمر فيه وإسناد الموصول واه.
سیدنا عبدالرحمٰن بن بیلمانی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عہدی (کافر) کے بدلے ایک مسلمان کو قتل کیا اور (ساتھ ہی) فرمایا ” میں ایفائے عہد کرنے والوں میں سب سے بہتر وفا کرنے والا ہوں۔“ عبدالرزاق نے اسی طرح مرسل روایت کیا ہے اور دارقطنی نے اس کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موصل بیان کیا ہے لیکن اس کی سند کمزور ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1006]
تخریج الحدیث: «أخرجه عبدالرزاق في المصنف:10 /101، حديث:18514، وابن أبي شيبة، والطحاوي،135، وفي سنده إبراهيم بن أبي يحييٰ وهو متروك، وله شاهد مرسل عند الطحاوي فيه محمد بن أبي حميد ضعيف جدًا، قال البخاري: منكر الحديث، وشاهد مرسل عند أبي داود في المراسيل، وفيه عبدالله بن يعقوب وعبدالله بن عبدالعزيز بن صالح الحضرمي مجهولان، فائدة: ولم يثبت عن عمر أنه قتل رجلاً مسلمًا في قتل الكافر، رواه إبراهيم النخعي وهو ولد بعد شهادة عمررضي الله عنه، وأما أثرعبيدالله بن عمر بن الخطاب، فإنه قتل مسلمين:الهرمزان وابنة أبي لؤلؤة ولم يريدوا أن يقتلوه في قتل الكافر، وأثر علي فيه قيس بن الربيع وحسين بن ميمون ضعيفان.»
حدیث نمبر: 1007
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال:" قتل غلام غيلة فقال عمر: لو اشترك فيه أهل صنعاء لقتلتهم به" أخرجه البخاري.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دھوکہ سے ایک غلام کو قتل کر دیا گیا۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اگر اس کے قتل میں سارے اہل صنعاء شریک ہوتے تو میں ان سب کو قتل کر ڈالتا۔“(بخاری)[بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1007]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الديات، باب إذا أصاب قوم من رجل هل يعاقب أو يقتص...، حديث"6896.»
حدیث نمبر: 1008
وعن أبي شريح الخزاعي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «فمن قتل له قتيل بعد مقالتي هذه فأهله بين خيرتين: إما أن يأخذوا العقل أو يقتلوا» أخرجه أبو داود والنسائي وأصله في الصحيحين من حديث أبي هريرة بمعناه.
سیدنا ابوشریح خزاعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” میرے اس خطبہ کے بعد اگر کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو متوفی کے ورثاء کو دو اختیار ہیں یا تو دیت لے لیں یا قاتل کو مقتول کے بدلہ میں قتل کر دیں۔“ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس روایت کا اصل اس کے ہم معنی صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1008]
تخریج الحدیث: « [إٍسناده صحيح] أخرجه أبوداود، الديات، باب ولي العمد يأخذ الدية، حديث:4504، والترمذي، الديات، حديث:1406، وأصله متفق عليه، البخاري، الديات، حديث:6880، ومسلم، الحج، حديث:1355.»
2. باب الديات
2. اقسام دیت کا بیان
حدیث نمبر: 1009
عن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم عن أبيه عن جده رضي الله عنهم أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كتب إلى أهل اليمن فذكر الحديث وفيه: «إن من اعتبط مؤمنا قتلا عن بينة فإنه قود إلا أن يرضى أولياء المقتول وإن في النفس الدية مائة من الإبل وفي الأنف إذا أوعب جدعه الدية وفي العينين الدية وفي اللسان الدية وفي الشفتين الدية وفي الذكر الدية وفي البيضتين الدية وفي الصلب الدية وفي الرجل الواحدة نصف الدية وفي المأمومة ثلث الدية وفي الجائفة ثلث الدية وفي المنقلة خمس عشرة من الإبل وفي كل إصبع من أصابع اليد والرجل عشر من الإبل وفي السن خمس من الإبل وفي الموضحة خمس من الإبل وإن الرجل يقتل بالمرأة وعلى أهل الذهب ألف دينار» . أخرجه أبو داود في المراسيل والنسائي وابن خزيمة وابن الجارود وابن حبان وأحمد واختلفوا في صحته.
سیدنا ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے اپنے باپ کے حوالہ سے اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کو لکھا، پھر حدیث بیان کی جس میں یہ تحریر تھا جس کسی نے ایک بےگناہ مسلمان کو قتل کیا اور اس قتل کے گواہ ہوں تو اس پر قصاص لازم ہے۔ الایہ کہ مقتول کے ورثاء راضی ہوں تو ایک جان کے قتل کی دیت سو اونٹ ہے اور ناک میں بھی پوری دیت ہے جبکہ اسے جڑ سے کاٹ دے اور دونوں آنکھوں اور زبان اور دونوں ہونٹوں کے عوض بھی پوری دیت ہے۔ اسی طرح عضو مخصوص اور دو خصیہ میں پوری دیت ہے اور پشت میں بھی پوری دیت ہے اور ایک پاؤں کی صورت میں آدھی دیت ہے اور دماغ کے زخم اور پیٹ کے زخم میں تہائی دیت ہے اور وہ زخم جس سے ہڈی ٹوٹ جائے اس میں پندرہ اونٹ اور ہاتھ اور پاؤں کی ہر ایک انگلی میں دس دس اونٹ دیت ہے اور ایک دانت کی دیت پانچ اونٹ اور ایسے زخم میں جس سے ہڈی نظر آنے لگے پانچ اونٹ دیت ہے اور مرد کو عورت کے بدلہ قتل کیا جائے گا اور جن کے پاس اونٹ نہ ہوں اور سونا ہو تو ان سے ایک ہزار دینار وصول کئے جائیں گے۔ ابوداؤد نے اسے اپنی مراسیل میں لکھا ہے اور نسائی، ابن خزیمہ، ابن جارود، ابن حبان اور احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی صحت میں انہوں نے اختلاف کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1009]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود في المراسيل، حديث:225، والنسائي، القسامة، حديث"4857، وابن حبان(الإحسان):8 /180، 181، حديث:6525، وأحمد:2 /217، وابن خزيمة: لم أجده.»
حدیث نمبر: 1010
وعن ابن مسعود عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «دية الخطأ أخماسا: عشرون حقة وعشرون جذعة وعشرون بنات مخاض وعشرون بنات لبون وعشرون بني لبون» أخرجه الدارقطني وأخرجه الأربعة بلفظ: «وعشرون بنو مخاض» بدل «لبون» وإسناد الأول أقوى وأخرجه ابن أبي شيبة من وجه آخر موقوفا وهو أصح من المرفوع وأخرجه أبو داود والترمذي من طريق عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهما رفعه: «الدية ثلاثون حقة وثلاثون جذعة وأربعون خلفة في بطونها أولادها» .
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” قتل خطا کی صورت میں پانچ قسم کے اونٹ دیت میں وصول کئے جائیں گے۔ بیس ایسے اونٹ جن کی عمر تین سال ہو اور بیس اونٹ جن کی عمر چار سال ہو اور بیس مادہ اونٹ جن کی عمر دو سال ہو اور بیس مادہ اونٹ جن کی عمر ایک ایک سال ہو اور بیس نر اونٹ جن کی عمر ایک سال ہو۔“(سنن دارقطنی) اور چاروں نے ان الفاظ سے ذکر کیا ہے کہ بیس نر اونٹ ایک سال عمر کے بدلے دو سال عمر کے اور پہلی کی سند قوی ہے اور ابن ابی شیبہ نے ایک اور طریق سے موقوفاً روایت کیا ہے اور اس کی سند اس مرفوع سے زیادہ صحیح ہے۔ ابوداؤد اور ترمذی نے «عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهما» کے طریق سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ دیت میں تیس تین سالہ اور تیس چار سالہ اور چالیس حاملہ اونٹنیاں وصول کی جائیں گی۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1010]
وعن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «إن أعتى الناس على الله ثلاثة: من قتل في حرم الله أو قتل غير قاتله أو لذحل الجاهلية» أخرجه ابن حبان في حديث صححه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ سرکشی کرنے والے لوگ تین قسم کے ہیں (ایک) جو اللہ کے حرم میں قتل کرے (دوسرا) جو اپنے غیر قاتل کو قتل کرے (تیسرا) وہ جو جاہلیت کی عداوت و دشمنی کی بنا پر قتل کرے۔“ ابن حبان نے اس کی تخریج ایک حدیث کے ضمن میں کی ہے۔ جسے انہوں نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1011]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن حبان (الموارد)، حديث:1699، وللحديث شواهد عند البخاري، الديات، حديث:6882، (من حديث ابن عباس) وغيره.»
حدیث نمبر: 1012
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «ألا إن دية الخطأ وشبه العمد ما كان بالسوط والعصا مائة من الإبل منها أربعون في بطونها أولادها» . أخرجه أبو داود والنسائي وابن ماجه وصححه ابن حبان.
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” قتل خطا کی دیت شبہ عمد (کی دیت ہے) جو کوڑے اور لاٹھی سے (مارا گیا) ہو۔ اس کی دیت سو اونٹ ہے۔ ان میں چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں گی جن کے پیٹ میں بچے پرورش پا رہے ہوں گے۔“ اسے ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے نکالا ہے اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1012]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الديات، باب في دية الخطاء شبه العمد، حديث:4547، والنسائي، القسامة، حديث:4795، وابن ماجه، الديات، حديث:2627، وابن حبان (الإحسان):7 /601، 602، حديث:5979.»