عن رفاعة بن رافع رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم سئل: أي الكسب أطيب؟قال: «عمل الرجل بيده، وکل بيع مبرور» رواه البزار وصححه الحاكم.
سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی کمائی پاکیزہ تر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”آدمی کی اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر قسم کی تجارت جو دھوکہ اور فریب سے پاک ہو۔“ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 648]
تخریج الحدیث: «أخرجه البزار، كشف الأستار:2 /83، والحاكم:2 /10 وسنده ضعيف، المسعودي اختلط، وللحديث شواهد ضعيفة عند الحاكم وغيره.»
حدیث نمبر: 649
وعن جابر بن عبدالله رضي الله عنهما أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول عام الفتح، وهو بمكة:«إن الله و رسوله حرم بيع الخمر، والميتة، والخنزير، والأصنام» فقيل: يا رسول الله! أرأيت شحوم الميتة، فإنها تطلى بها السفن، وتدهن بها الجلود، ويستصبح بها الناس؟ فقال: «لا، هو حرام» ثم قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عند ذلك: «قاتل الله اليهود، إن الله تعالى لما حرم عليهم شحومها جملوه، ثم باعوه، فأكلوا ثمنه» متفق عليه.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں فتح مکہ کے سال یہ فرماتے سنا کہ ”بیشک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے شراب کی خرید و فروخت، مردار اور خنزیر کی خرید و فروخت اور بتوں کی تجارت کو حرام کر دیا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول! مردار کی چربی کے متعلق کیا حکم ہے؟ اس لئے کہ اس سے کشتیوں کو طلاء کیا جاتا ہے اور چمڑوں کو چکنا کیا جاتا ہے اور لوگ اسے جلا کر روشنی حاصل کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں! وہ بھی حرام ہے۔“ پھر اس کے ساتھ ہی فرمایا ”اللہ تعالیٰ یہود کو غارت کرے، کہ جب اللہ تعالیٰ نے چربیوں کو یہود کے لئے حرام کر دیا تو انہوں نے اسے پگھلا کر فروخت کیا اور اس کی قیمت کھائی۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 649]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع الميتة والأصنام، حديث:2236، ومسلم، المساقاة، باب تحريم بيع الخمر والميتة...، حديث:1581.»
حدیث نمبر: 650
وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «إذا اختلف المتبايعان، وليس بينهما بينة، فالقول ما يقول رب السلعة أو يتتاركان» . رواه الخمسة وصححه الحاكم.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ”جب فروخت کرنے والے اور خریدنے والے میں اختلاف واقع ہو جائے اور ثبوت و شہادت کسی کے پاس نہ ہو، تو صاحب مال کی بات معتبر ہو گی، یا وہ دونوں اس سودے کو چھوڑ دیں۔“ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 650]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب إذا اختلف البيعان والمبيع قائم، حديث:3511، والترمذي، البيوع، حديث:1270، والنسائي، البيوع، حديث:4652، وابن ماجه، التجارات، حديث:2186، وأحمد:1 /466، والحاكم:2 /45.»
حدیث نمبر: 651
وعن أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نهى عن ثمن الكلب، ومهر البغي، وحلوان الكاهن. متفق عليه.
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، بدکار و فاحشہ عورت کی اجرت و کمائی اور کاہن کی شیرینی سے منع فرمایا۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 651]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الإجارة، باب كسب البغي والإماء، حديث:2282، ومسلم، المساقاة، باب تحريم ثمن الكلب، حديث:1567.»
حدیث نمبر: 652
وعن جابر بن عبد الله أنه كان على جمل له قد أعيى، فأراد أن يسيبه قال: فلحقني النبي صلى الله عليه وآله وسلم فدعا لي، وضربه، فسار سيرا لم يسر مثله، فقال: «بعنيه بأوقية» قلت: لا، ثم قال: «بعنيه» فبعته بأوقية، واشترطت حملانه إلى أهلي، فلما بلغت أتيته بالجمل، فنقدني ثمنه، ثم رجعت، فأرسل في أثري، فقال: «أتراني ماكستك لآخذ جملك؟ خذ جملك ودراهمك، فهو لك» متفق عليه، وهذا السياق لمسلم.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ اپنے ایک درماندہ تھکے ماندے اونٹ پر سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے اسے چھوڑنے کا ارادہ کر لیا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اتنے میں پیچھے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آ ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے دعا فرمائی اور اونٹ کو مارا تو وہ ایسی تیز روی سے چلنے لگا کہ اس سے پہلے ایسی تیز رفتاری سے نہیں چلا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے یہ اونٹ ایک اوقیہ چاندی کے عوض فروخت کر دو۔“ میں نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ فرمایا ”مجھے یہ اونٹ بیچ دو۔“ تو میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچ دیا اور شرط یہ طے کی کہ اپنے گھر والوں تک (میں) سوار ہو کر جاؤں گا۔ پس جونہی (مدینہ) پہنچا تو میں وہ اونٹ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نقد قیمت مجھے ادا فرما دی۔ پھر میں (رقم وصول کر کے) واپس آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیچھے (اونٹ) بھیج دیا اور فرمایا کہ ”تیرا خیال ہے کہ میں نے اونٹ کی قیمت کم کی تاکہ تیرا اونٹ لے لوں؟ اپنا اونٹ لے لو اور رقم بھی اپنے پاس رکھو یہ تیرے لئے ہے۔“(بخاری و مسلم) یہ سیاق مسلم میں ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 652]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجهاد، باب من ضرب دابة غيره في الغزو، حديث:2861، ومسلم، المساقاة، باب بيع البعير واستثناء ركوبه، حديث:715 بعد حديث:1599.»
حدیث نمبر: 653
وعنه قال: أعتق رجل منا عبدا له عن دبر، ولم يكن له مال غيره، فدعا به النبي صلى الله عليه وآله وسلم فباعه. متفق عليه.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ ہم میں سے کسی شخص نے اپنا غلام مدبر کر دیا۔ اس غلام کے سوا اس کے پاس اور کوئی مال نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کو بلوایا اور اسے فروخت کر دیا۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 653]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع المزايدة، حديث:2141، ومسلم، الأيمان، باب جواز بيع المدبر، حديث:997، بعد حديث:1668.»
حدیث نمبر: 654
وعن ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وآله وسلم أن فأرة وقعت في سمن، فماتت فيه، فسئل النبي صلى الله عليه وآله وسلم عنها، فقال: «ألقوها وما حولها وكلوه» رواه البخاري، وزاد أحمد والنسائي: في سمن جامد.
سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا زوجہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ ایک چوہیا گھی میں گر کر مر گئی۔ اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا۔ (جواب میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اسے نکال کر باہر پھینک دو اور اس کے اردگرد کا گھی بھی باہر ڈال دو اور (بقیہ) استعمال کر لو۔“(بخاری) نسائی اور احمد نے اتنا اضافہ نقل کیا ہے ”منجمد گھی میں۔“[بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 654]
تخریج الحدیث: « أخرجه البخاري، الوضوء باب ما يقع من النجاسات في السمن والماء، حديث:235، وأحمد:6 /335، والنسائي، الفرع والعتيرة، حديث:4263.»
حدیث نمبر: 655
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إذا وقعت الفأرة في السمن، فإن كان جامدا فألقوها وما حولها، وإن كان مائعا، فلا تقربوه» رواه آحمد وأبو داود، وقد حكم عليه البخاري وأبو حاتم بالوهم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب چوہا گھی میں گر جائے، اگر گھی منجمد ہو تو اس چوہے کو اور اس کے اردگرد کے گھی کو باہر پھینک دو اور اگر گھی سیال ہو تو اس کے قریب بھی نہ پھٹکو۔“ اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ بخاری اور ابوحاتم نے اس پر وہم کا حکم لگایا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 655]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الأطعمة، باب في الفأرة تقع في السمن، حديث:3842، وأحمد:2 /232، 265، 490. * الزهري مدلس وعنعن، و معمر خالفه الثقات فيه.»
حدیث نمبر: 656
وعن أبي الزبير قال: سألت جابرا رضي الله عنه عن ثمن السنور والكلب، فقال: زجر النبي صلى الله عليه وآله وسلم عن ذلك. رواه مسلم والنسائي وزاد: إلا كلب صيد.
سیدنا ابو الزبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے بلی اور کتے کی قیمت کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں زجر و توبیخ فرمائی ہے۔ (مسلم و نسائی) اور نسائی میں اتنا اضافہ ہے کہ ”شکاری کتے کے علاوہ۔“[بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 656]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساقاة، باب تحريم ثمن الكلب، حديث:1569، وهو حديث صحيح، وحديث: "إلا كلب صيد" أخرجه النسائي، البيوع، حديث:4672 وسنده ضعيف، أبوالزبيرعنعن.»
حدیث نمبر: 657
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: جاءتني بريرة فقالت:إني كاتبت أهلي على تسع أواق، في كل عام أوقية، فأعينيني، فقلت: إن أحب أهلك أن أعدها لهم ويكون ولاؤك لي فعلت، فذهبت بريرة إلى أهلها، فقالت لهم، فأبوا عليها، فجاءت من عندهم، ورسول الله صلى الله عليه وآله وسلم جالس، فقالت: إني قد عرضت ذلك عليهم، فأبوا إلا أن يكون الولاء لهم، فسمع النبي صلى الله عليه وآله وسلم، فأخبرت عائشة النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: «خذيها واشترطي لهم الولاء، فإنما الولاء لمن عتق» ، ففعلت عائشة رضي الله تعالى عنها، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الناس خطيبا، فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: «أما بعد: فما بال رجال يشترطون شروطا ليست في كتاب الله عزوجل؟ ما كان من شرط ليس في كتاب الله فهو باطل، وإن كان مائة شرط، قضاء الله أحق، وشرط الله أوثق، وإنما الولاء لمن أعتق» . متفق عليه، واللفظ للبخاري، وعند مسلم قال: «اشتريها، وأعتقيها، واشترطي لهم الولاء» .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا (لونڈی) میرے پاس آئی اور کہنے لگی میں نے اپنے مالک سے نو اوقیہ چاندی پر مکاتبت (یعنی میں نو اوقیہ دے کر آزادی لے لوں گی) کر لی ہے کہ ہر سال میں ایک اوقیہ ادا کرتی رہوں گی۔ لہٰذا میری (اس بارے میں) مدد کریں۔ میں نے (اسے) کہا کہ اگر تیرے مالک کو یہ پسند ہو کہ میں تیری مجموعی قیمت یکمشت ادا کر دوں اور تیری ولاء میری ہو جائے تو میں ایسا کرنے کو تیار ہوں۔ بریرہ رضی اللہ عنہا یہ تجویز لے کر اپنے مالک کے پاس گئی اور ان سے یہ کہا تو انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس سے واپس آئی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے وہ تجویز پیش کی تھی، مگر انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ولاء ان کے لئے ہے۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس واقعہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کیا۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اسے لے لو اور ان سے ولاء کی شرط کر لو، کیونکہ ولاء کا حقدار وہی ہے جو اسے آزادی دے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں خطاب فرمانے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا ” لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں۔ (یاد رکھو!) جو شرط کتاب اللہ میں نہیں ہے وہ باطل ہیں، خواہ سینکڑوں شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کا فیصلہ نہایت برحق ہے اور اللہ کی شرط نہایت ہی پختہ اور پکی ہے۔ ولاء اسی کا حق ہے جو آزاد کرے۔“(بخاری و مسلم) یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ مسلم کے ہاں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اسے خرید لو اور آزاد کر دو اور ان سے ولاء کی شرط کر لو۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 657]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، المكاتب، باب ما يجوز من شروط المكاتب، حديث:2561، ومسلم، العتق، باب إنما الولاء لمن أعتق، حديث:1504.»