«أم»، ماں کو کہتے ہیں۔ «أم الكتاب» اس سورۃ کا نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ قرآن مجید میں اسی سے کتابت کی ابتداء ہوتی ہے۔ (اسی لیے اسے «فاتحة الكتاب» بھی کہا گیا ہے) اور نماز میں بھی قرآت اسی سے شروع کی جاتی ہے اور «الدين» بدلہ کے معنی میں ہے۔ خواہ اچھائی میں ہو یا برائی میں جیسا کہ (بولتے ہیں) «كما تدين تدان.»(جیسا کرو گے ویسا بھرو گے)۔ مجاہد نے کہا کہ «الدين» حساب کے معنیٰ میں ہے جبکہ «مدينين» بمعنیٰ «محاسبين» ہے یعنی حساب کئے گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4474]
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی حالت میں بلایا، میں نے کوئی جواب نہیں دیا (پھر بعد میں، میں نے حاضر ہو کر) عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے نہیں فرمایا ہے «استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم»”اللہ اور اس کے رسول جب تمہیں بلائیں تو ہاں میں جواب دو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے ایک ایسی سورت کی تعلیم دوں گا جو قرآن کی سب سے بڑی سورت ہے۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور جب آپ باہر نکلنے لگے تو میں نے یاد دلایا کہ آپ نے مجھے قرآن کی سب سے بڑی سورت بتانے کا وعدہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «الحمد لله رب العالمين» یہی وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4474]
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں سمی نے، انہیں ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب امام «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو تم «آمين.» کہو کیونکہ جس کا یہ کہنا ملائکہ کے کہنے کے ساتھ ہو جائے اس کی تمام پچھلی خطائیں معاف ہو جاتی ہیں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4475]
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (دوسری سند) اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مومنین قیامت کے دن پریشان ہو کر جمع ہوں گے اور (آپس میں) کہیں گے، بہتر یہ تھا کہ اپنے رب کے حضور میں آج کسی کو ہم اپنا سفارشی بناتے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونگے اور عرض کریں گے کہ آپ انسانوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا۔ آپ کے لیے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے۔ آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں سفارش کر دیں تاکہ آج کی مصیبت سے ہمیں نجات ملے۔ آدم علیہ السلام کہیں گے، میں اس کے لائق نہیں ہوں، وہ اپنی لغزش کو یاد کریں گے اور ان کو پروردگار کے حضور میں جانے سے شرم آئے گی۔ کہیں گے کہ تم لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ سب سے پہلے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (میرے بعد) زمین والوں کی طرف مبعوث کیا تھا۔ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں اور وہ اپنے رب سے اپنے سوال کو یاد کریں گے جس کے متعلق انہیں کوئی علم نہیں تھا۔ ان کو بھی شرم آئے گی اور کہیں گے کہ اللہ کے خلیل علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے لیکن وہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں، موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا تھا اور تورات دی تھی۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی عذر کر دیں گے کہ مجھ میں اس کی جرات نہیں۔ ان کو بغیر کسی حق کے ایک شخص کو قتل کرنا یاد آ جائے گا اور اپنے رب کے حضور میں جاتے ہوئے شرم دامن گیر ہو گی۔ کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول، اس کا کلمہ اور اس کی روح ہیں لیکن عیسیٰ علیہ السلام بھی یہی کہیں گے کہ مجھ میں اس کی ہمت نہیں، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ اللہ کے مقبول بندے ہیں اور اللہ نے ان کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دئیے ہیں۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے، میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت چاہوں گا۔ مجھے اجازت مل جائے گی، پھر میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدہ میں گر پڑوں گا اور جب تک اللہ چاہے گا میں سجدہ میں رہوں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ اور جو چاہو مانگو، تمہیں دیا جائے گا، جو چاہو کہو تمہاری بات سنی جائے گی۔ شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ حمد بیان کروں گا جو مجھے اس کی طرف سے سکھائی گئی ہو گی۔ اس کے بعد شفاعت کروں گا اور میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں انہیں جنت میں داخل کراؤں گا چوتھی مرتبہ جب میں واپس آؤں گا تو عرض کروں گا کہ جہنم میں ان لوگوں کے سوا اور کوئی اب باقی نہیں رہا جنہیں قرآن نے ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ضروری قرار دے دیا ہے۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ قرآن کی رو سے دوزخ میں قید رہنے سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے «خالدين فيها» کہا گیا ہے۔ کہ وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4476]
مجاہد نے کہا «إلى شياطينهم» سے ان کے دوست منافق اور مشرک مراد ہیں۔ «محيط بالكافرين» کے معنی اللہ کافروں کو اکٹھا کرنے والا ہے۔ «على الخاشعين» میں «خاشعين» سے مراد پکے ایماندار ہیں۔ «بقوة» یعنی اس پر عمل کر کے قوت سے یہی مراد ہے۔ ابوالعالیہ نے کہا «مرض» سے «شك» مراد ہے۔ «صبغة» سے دین مراد ہے۔ «وما خلفها» یعنی پچھلے لوگوں کے لیے عبرت جو باقی رہی۔ «وما خلفها» کا معنی اس میں سفیدی نہیں اور ابوالعالیہ کے سوا نے کہا «يسومونكم» کا معنی تم پر اٹھاتے تھے یا تم کو ہمیشہ تکلیف پہنچاتے تھے۔ اور (سورۃ الکہف میں) «الولاية» بفتح واؤ ہے جس کے معنی «ربوبية» یعنی خدائی کے ہیں۔ اور «ولاية» بکسر واؤ اس کے معنی سرداری کے ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا جن جن اناجوں کو لوگ کھاتے ہیں ان کو «فوم.» کہتے ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کو ثوم پڑھا ہے یعنی لہسن کے معنی میں لیا ہے۔ «فادارأتم» کا معنی تم نے آپس میں جھگڑا کیا۔ قتادہ نے کہا «فباءوا» یعنی لوٹ گئے اور قتادہ کے سوا دوسرے شخص (ابو عبیدہ) نے کہا «يستفتحون» کا معنی مدد مانگتے تھے۔ «شروا» کے معنی بیجا۔ لفظ «راعنا» «رعونة» سے نکلا ہے۔ عرب لوگ جب کسی کو احمق بناتے تو اس کو لفظ «راعنا» سے پکارتے۔ «لا يجزي» کچھ کام نہ آئے گی۔ «ابتلي» کے معنی آزمایا جانچا۔ «خطوات» لفظ «خطو» بمعنی قدم کی جمع ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4477]
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے، ان سے عمرو بن شرحبیل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پید اکیا ہے۔ میں نے عرض کیا یہ تو واقعی سب سے بڑا گناہ ہے، پھر اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے۔ میں نے پوچھا اور اس کے بعد؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4477]
4. باب: آیت کی تفسیر ”اور تم پر ہم نے بادل کا سایہ کیا، اور تم پر ہم نے من و سلویٰ اتارا اور کہا کہ کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں کو جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں، ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے نے خود اپنے نفسوں پر ظلم کیا“۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے، ان سے عمرو بن حریث نے اور ان سے سعید بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” «كمأة»(یعنی کھنبی) بھی «من» کی قسم ہے اور اس کا پانی آنکھ کی دوا ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4478]