الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


مختصر صحيح مسلم کل احادیث (2179)
حدیث نمبر سے تلاش:

مختصر صحيح مسلم
جنازہ کے مسائل
1. بیماروں کی عیادت کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 451
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ انصاری صحابی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور پھر واپس جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے انصاری بھائی! میرا بھائی سعد کیسا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ اچھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کون ان کی عیادت کرتا ہے؟ (یہ کہہ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ہم سے زیادہ آدمی تھے، نہ ہمارے پاس جوتے تھے اور نہ موزے اور نہ ٹوپیاں اور نہ کرتے (یہ کمال زہد تھا صحابہ کا اور دنیا سے بیزاری تھی) اور ہم اس کنکریلی زمین میں چلے جاتے تھے یہاں تک کہ ان تک پہنچے۔ اور جو لوگ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے پاس تھے وہ ہٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے تھے ان کے پاس گئے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 451]
2. مریض اور میت کے پاس کیا کہا جائے؟
حدیث نمبر: 452
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم بیمار یا میت کے پاس آؤ تو اچھی بات کہو۔ اس لئے کہ فرشتے اس بات پر آمین کہتے ہیں جو تم کہتے ہو۔ کہتی ہیں کہ جب ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوسلمہ کا انتقال ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں دعا کرو کہ اے اللہ! مجھے اور اس کو بخش دے اور مجھے ان سے نعم البدل عطا فرما کہتی ہیں کہ میں نے یہ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نعم البدل عطا کیا یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 452]
3. قریب المرگ (مرنے والے) کو ”لا الٰہ الا اللہ“ کی تلقین کرنا۔
حدیث نمبر: 453
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے بیماروں کو) جو مرنے کے قریب ہوں، لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کرو (ترغیب دلاؤ)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 453]
4. جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے۔
حدیث نمبر: 454
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو اللہ سے ملنا نہیں چاہتا اللہ بھی اس سے ملنا نہیں چاہتا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! موت کو تو ہم میں سے سب ناپسند کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا یہ مطلب نہیں، بلکہ جب مومن (کا آخری وقت ہوتا ہے تو اس) کو اللہ کی رحمت اور رضامندی اور جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنا چاہتا ہے۔ (اور بیماری اور دنیا کے مکروہات سے جلد خلاصی پانا چاہتا ہے) اور اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے۔ اور جب کافر (کا آخری وقت ہوتا ہے تو اس) کو اللہ کے عذاب اور اس کے غصہ کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنا پسند نہیں کرتا اور اللہ عزوجل بھی اس سے ملنا پسند نہیں کرتا۔ ایک دوسری روایت میں شریح بن ہانی سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اللہ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔ میں یہ حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سن کر ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہا کہ اے ام المؤمنین! ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بیان کی کہ اگر وہ حدیث ٹھیک ہو تو ہم سب تباہ ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے سے جو ہلاک ہوا وہی حقیقت میں ہلاک ہوا، کہو تو وہ (حدیث) کیا ہے؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے اور جو اللہ سے ملنا نہیں چاہتا اللہ بھی اس سے ملنا نہیں چاہتا، اور ہم میں سے تو کوئی ایسا نہیں ہے جو مرنے کو برا نہ سمجھے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے جو تو سمجھتا ہے۔ بلکہ جب آنکھیں پھر جائیں اور دم سینہ میں رک جائے اور روئیں (یعنی بال) بدن پر کھڑے ہو جائیں اور انگلیاں تشنج زدہ ہو جائیں (یعنی نزع کی حالت میں، تو) اس وقت جو اللہ سے ملنا پسند کرے اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملنا ناپسند کرے اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 454]
5. موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 455
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی وفات سے روز قبل یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کوئی آدمی نہ مرے مگر اللہ کے ساتھ نیک گمان رکھ کر (یعنی خاتمہ کے وقت اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بلکہ اپنے مالک کے فضل و کرم کی امید رکھے اور اپنی نجات اور مغفرت کا گمان رکھے)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 455]
6. میت کی آنکھیں بند کرنے اور اس کے لئے دعا کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 456
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کو آئے اور اس وقت ان کی آنکھیں چڑھ گئی تھیں، (یعنی فوت ہو چکے تھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھیں بند کر دیں اور فرمایا: جب جان نکلتی ہے تو آنکھیں اس کے پیچھے لگی رہتی ہیں۔ ان کے گھر والوں میں سے لوگوں نے رونا شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے لئے اچھی ہی دعا کرو اس لئے کہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کو بخش دے اور ان کا درجہ ہدایت والوں میں بلند کر اور تو ان کے باقی رہنے والے عزیزوں میں خلیفہ ہو جا اور ان کی قبر ان کے لئے کشادہ اور روشن کر دے۔ اے تمام جہانوں کے پالنے والے! ہمیں بھی بخش دے اور ان کو بھی۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 456]
7. میت کو کپڑے سے ڈھانپ دینا۔
حدیث نمبر: 457
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یمنی چادر ڈال دی گئی۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 457]
8. مومنوں اور کافروں کی روحوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 458
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہوئے) کہتے ہیں کہ جب ایماندار کی روح بدن سے نکلتی ہے تو اس کے آگے دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو آسمان پر چڑھا لے جاتے ہیں۔ حماد (راوی حدیث) نے کہا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس روح کی خوشبو کا اور مشک کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ آسمان والے (فرشتے) کہتے ہیں کہ کوئی پاک روح زمین کی طرف سے آئی ہے، اللہ تجھ پر رحمت کرے اور تیرے بدن پر جس کو تو نے آباد رکھا۔ پھر رب العالمین کے پاس اس کو لے جاتے ہیں۔ پھر رب العالمین فرماتا ہے کہ اس کو لے جاؤ (اپنے مقام میں یعنی علیّین میں جہاں مومنوں کی ارواح رہتی ہیں) قیامت تک (وہیں رکھو) اور کافر کی روح جب نکلتی ہے (راوی حدیث) حماد نے کہا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کی بدبو اور اس پر لعنت کا ذکر کیا، کہ آسمان والے کہتے ہیں کہ کوئی ناپاک روح زمین کی طرف سے آئی ہے۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ اس کو لے جاؤ (اپنے مقام سجین میں جہاں کافروں کی روحیں رہتی ہیں) قیامت ہونے تک۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باریک کپڑا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھے ہوئے تھے (جب کافر کی روح کا ذکر کیا اس کی بدبو بیان کرنے کو) اپنی ناک پر ڈال کر دکھاتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح سے۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 458]
9. شروع صدمہ میں مصیبت پر صبر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 459
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے (فوت شدہ) بچے پر رو رہی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ تو وہ عورت کہنے لگی کہ تمہیں میری مصیبت کا کیا اندازہ ہے۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے تو عورت سے کہا گیا کہ بیشک وہ (کہنے والے) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ تو اسے موت کے برابر (صدمے) نے آ لیا۔ چنانچہ وہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر آئی تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر دربان نہ پائے۔ کہنے لگی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک صبر تو صدمے کی ابتداء کے وقت ہوتا ہے۔ (راوی کو شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عند اول صدمۃ کا لفظ بولا یا عند اول الصدمۃ کے الفاظ استعمال کئے) [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 459]
10. اولاد کی موت پر ثواب کی نیت سے صبر کرنے پر اجر و ثواب۔
حدیث نمبر: 460
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں سے فرمایا کہ تم میں سے جس کے تین لڑکے مر جائیں اور وہ (عورت) اللہ کی رضامندی کے واسطے صبر کرے، تو جنت میں جائے گی۔ ایک عورت بولی کہ یا رسول اللہ! اگر دو بچے مریں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو ہی سہی۔ ایک دوسری سند سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس مسلمان کے تین بچے مر جائیں اس کو جہنم کی آگ نہ لگے گی مگر قسم اتارنے کے لئے (یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو دوزخ پر سے نہ گزرے اس وجہ سے اس کا گزر بھی دوزخ پر سے ہو گا لیکن اور کسی طرح عذاب نہ ہو گا)۔ [مختصر صحيح مسلم/حدیث: 460]

1    2    3    4    5    Next