ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ ایک شخص سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے یہاں آیا اور کہا کہ یہ فلاں شخص اس کا اشارہ امیر مدینہ (مروان بن حکم) کی طرف تھا، برسر منبر علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا ہے، ابوحازم نے بیان کیا کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا کہتا ہے؟ اس نے بتایا کہ انہیں ”ابوتراب“ کہتا ہے، اس پر سہل ہنسنے لگے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! یہ نام تو ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا اور خود علی رضی اللہ عنہ کو اس نام سے زیادہ اپنے لیے اور کوئی نام پسند نہیں تھا۔ یہ سن کر میں نے اس حدیث کے جاننے کے لیے سہل رضی اللہ عنہ سے خواہش ظاہر کی اور عرض کیا: اے ابوعباس! یہ واقعہ کس طرح سے ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آئے اور پھر باہر آ کر مسجد میں لیٹ رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) دریافت فرمایا، تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، دیکھا تو ان کی چادر پیٹھ سے نیچے گر گئی ہے اور ان کی کمر پر اچھی طرح سے خاک لگ چکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی ان کی کمر سے صاف فرمانے لگے اور بولے، اٹھو اے ابوتراب اٹھو! (دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3703]
ہم سے محمد بن رافع نے بیان کیا، کہا ہم سے حسین نے، ان سے زائدۃ نے، ان سے ابوحصین نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا کہ ایک شخص عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں آیا اور عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کے محاسن کا ذکر کیا، پھر کہا کہ شاید یہ باتیں تمہیں بری لگی ہوں گی، اس نے کہا جی ہاں، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا اللہ تیری ناک خاک آلودہ کرے پھر اس نے علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا، انہوں نے ان کے بھی محاسن ذکر کئے اور کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کا گھرانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا نہایت عمدہ گھرانہ ہے، پھر کہا شاید یہ باتیں بھی تمہیں بری لگی ہوں گی، اس نے کہا کہ جی ہاں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے اللہ تیری ناک خاک آلودہ کرے، جا، اور میرا جو بگاڑنا چاہے بگاڑ لینا، کچھ کمی نہ کرنا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3704]
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، انہوں نے ابن ابی لیلیٰ سے سنا، کہا ہم سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں لیکن آپ موجود نہیں تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی تو ان سے اس کے بارے میں انہوں نے بات کی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کی اطلاع دی، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہمارے گھر تشریف لائے، اس وقت ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے، میں نے چاہا کہ کھڑا ہو جاؤں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی لیٹے رہو، اس کے بعد آپ ہم دونوں کے درمیان بیٹھ گئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی،۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھ سے جو طلب کیا ہے کیا میں تمہیں اس سے اچھی بات نہ بتاؤں، جب تم سونے کے لیے بستر پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمدللہ پڑھ لیا کرو، یہ عمل تمہارے لیے کسی خادم سے بہتر ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3705]
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد نے، انہوں نے ابراہیم بن سعد سے سنا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3706]
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں ابن سیرین نے، انہیں عبیدہ نے کہ علی رضی اللہ عنہ نے عراق والوں سے کہا کہ جس طرح تم پہلے فیصلہ کیا کرتے تھے اب بھی کیا کرو کیونکہ میں اختلاف کو برا جانتا ہوں۔ اس وقت تک کہ سب لوگ جمع ہو جائیں یا میں بھی اپنے ساتھیوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کی طرح دنیا سے چلا جاؤں، ابن سیرین رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ عام لوگ (روافض) جو علی رضی اللہ عنہ سے روایات (شیخین کی مخالفت میں) بیان کرتے ہیں وہ قطعاً جھوٹی ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3707]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
10. بَابُ مَنَاقِبُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ:
10. باب: جعفر بن ابی طالب ہاشمی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ تم صورت اور سیرت میں مجھ سے زیادہ مشابہ ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: Q3708]
ہم سے احمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن ابراہیم بن دینار ابوعبداللہ جہنی نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ذئب نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت احادیث بیان کرتا ہے، حالانکہ پیٹ بھرنے کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر وقت رہتا تھا، میں خمیری روٹی نہ کھاتا اور نہ عمدہ لباس پہنتا تھا (یعنی میرا وقت علم کے سوا کسی دوسری چیز کے حاصل کرنے میں نہ جاتا) اور نہ میری خدمت کے لیے کوئی فلاں یا فلانی تھی بلکہ میں بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ سے پتھر باندھ لیا کرتا۔ بعض وقت میں کسی کو کوئی آیت اس لیے پڑھ کر اس کا مطلب پوچھتا تھا کہ وہ اپنے گھر لے جا کر مجھے کھانا کھلا دے، حالانکہ مجھے اس آیت کا مطلب معلوم ہوتا تھا، مسکینوں کے ساتھ سب سے بہتر سلوک کرنے والے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے، ہمیں اپنے گھر لے جاتے اور جو کچھ بھی گھر میں موجود ہوتا وہ ہم کو کھلاتے۔ بعض اوقات تو ایسا ہوتا کہ صرف شہد یا گھی کی کپی ہی نکال کر لاتے اور اسے ہم پھاڑ کر اس میں جو کچھ ہوتا اسے ہی چاٹ لیتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3708]
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، انہیں شعبی نے خبر دی کہ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جعفر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے کو سلام کرتے تو یوں کہا کرتے «السلام عليك يا ابن ذي الجناحين.» اے دو پروں والے بزرگ کے صاحبزادے تم پر سلام ہو۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا حدیث میں جو «جناحين.» کا لفظ ہے اس سے مراد دو گوشے (کونے) ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3709]
ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، ان سے ابوعبداللہ بن مثنیٰ نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھا کر بارش کی دعا کراتے اور کہتے کہ اے اللہ پہلے ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کراتے تھے تو ہمیں سیرابی عطا کرتا تھا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے ذریعہ بارش کی دعا کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں سیرابی عطا فرما۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد خوب بارش ہوئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3710]
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا) جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: Q3711]