ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں یونس نے ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی اور انہیں حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ جنگ بدر کے مال غنیمت سے میرے حصے میں ایک جوان اونٹنی آئی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک جوان اونٹنی خمس کے مال میں سے دی تھی ‘ جب میرا ارادہ ہوا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کروں ‘ تو بنی قینقاع (قبیلہ یہود) کے ایک صاحب سے جو سنار تھے ‘ میں نے یہ طے کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں اذخر گھاس (جنگل سے) لائیں۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ میں وہ گھاس سناروں کو بیچ دوں گا اور اس کی قیمت سے اپنے نکاح کا ولیمہ کروں گا۔ ابھی میں ان دونوں اونٹنیوں کا سامان ‘ پالان اور تھیلے اور رسیاں جمع کر رہا تھا۔ اور یہ دونوں اونٹنیاں ایک انصاری صحابی کے گھر کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ جب سارا سامان فراہم کر کے واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری دونوں اونٹنیوں کے کوہان کسی نے کاٹ دیئے ہیں۔ اور ان کے پیٹ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی گئی ہیں۔ جب میں نے یہ حال دیکھا تو میں بے اختیار رو دیا۔ میں نے پوچھا کہ یہ سب کچھ کس نے کیا ہے؟ تو لوگوں نے بتایا کہ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے اور وہ اسی گھر میں کچھ انصار کے ساتھ شراب پی رہے ہیں۔ میں وہاں سے واپس آ گیا اور سیدھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کی خدمت میں اس وقت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ میں کسی بڑے صدمے میں ہوں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”علی! کیا ہوا؟“ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے آج کے دن جیسا صدمہ کبھی نہیں دیکھا۔ حمزہ (رضی اللہ عنہ) نے میری دونوں اونٹنیوں پر ظلم کر دیا۔ دونوں کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کے پیٹ چیر ڈالے۔ ابھی وہ اسی گھر میں کئی یاروں کے ساتھ شراب کی مجلس جمائے ہوئے موجود ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اپنی چادر مانگی اور اسے اوڑھ کر پیدل چلنے لگے۔ میں اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے۔ آخر جب وہ گھر آ گیا جس میں حمزہ رضی اللہ عنہ موجود تھے تو آپ نے اندر آنے کی اجازت چاہی اور اندر موجود لوگوں نے آپ کو اجازت دے دی۔ وہ لوگ شراب پی رہے تھے۔ حمزہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ ملامت کرنا شروع کی۔ حمزہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں شراب کے نشے میں مخمور اور سرخ ہو رہی تھیں۔ انہوں نے نظر اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ پھر نظر ذرا اور اوپر اٹھائی ‘ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر نظر لے گئے اس کے بعد نگاہ اور اٹھا کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناف کے قریب دیکھنے لگے۔ پھر چہرے پر جما دی۔ پھر کہنے لگے کہ تم سب میرے باپ کے غلام ہو، یہ حال دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب محسوس کیا کہ حمزہ بالکل نشے میں ہیں، تو آپ وہیں سے الٹے پاؤں واپس آ گئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکل آئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3091]
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے صالح بن کیسان نے ‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ انہیں عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ سے انہیں ان کی میراث کا حصہ دلایا جائے جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فے کی صورت میں دیا تھا (جیسے فدک وغیرہ)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3092]
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی حیات میں) فرمایا تھا کہ ہمارا (گروہ انبیاء علیہم السلام کا) ورثہ تقسیم نہیں ہوتا ‘ ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر غصہ ہو گئیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ترک ملاقات کی اور وفات تک ان سے نہ ملیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے زندہ رہی تھیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیبر اور فدک اور مدینہ کے صدقے کی وراثت کا مطالبہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس سے انکار تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی بھی ایسے عمل کو نہیں چھوڑ سکتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں کرتے رہے تھے۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ کا جو صدقہ تھا وہ عمر رضی اللہ عنہ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کو (اپنے عہد خلافت میں) دے دیا۔ البتہ خیبر اور فدک کی جائیداد کو عمر رضی اللہ عنہ نے روک رکھا اور فرمایا کہ یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ ہیں اور ان حقوق کے لیے جو وقتی طور پر پیش آتے یا وقتی حادثات کے لیے رکھی تھیں۔ یہ جائیداد اس شخص کے اختیار میں رہیں گی جو خلیفہ وقت ہو۔ زہری نے کہا ‘ چنانچہ ان دونوں جائیدادوں کا انتظام آج تک (بذریعہ حکومت) اسی طرح ہوتا چلا آتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3093]
ہم سے اسحاق بن محمد فروی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے مالک بن انس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے مالک بن اوس بن حدثان نے (زہری نے بیان کیا کہ) محمد بن جبیر نے مجھ سے (اسی آنے والی) حدیث کا ذکر کیا تھا۔ اس لیے میں نے مالک بن اوس کی خدمت میں خود حاضر ہو کر ان سے اس حدیث کے متعلق (بطور تصدیق) پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ دن چڑھ آیا تھا اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ‘ اتنے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک بلانے والا میرے پاس آیا اور کہا کہ امیرالمؤمنین آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں اس قاصد کے ساتھ ہی چلا گیا اور عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ایک تخت پر بوریا بچھائے ‘ بورئیے پر کوئی بچھونا نہ تھا ‘ صرف ایک چمڑے کے تکئے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں سلام کر کے بیٹھ گیا۔ پھر انہوں نے فرمایا ‘ مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے تھے ‘ میں نے ان کے لیے کچھ حقیر سی امداد کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تم اسے اپنی نگرانی میں ان میں تقسیم کرا دو ‘ میں نے عرض کیا ‘ یا امیرالمؤمنین! اگر آپ اس کام پر کسی اور کو مقرر فرما دیتے تو بہتر ہوتا۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے یہی اصرار کیا کہ نہیں ‘ اپنی ہی تحویل میں بانٹ دو۔ ابھی میں وہیں حاضر تھا کہ امیرالمؤمنین کے دربان یرفا آئے اور کہا کہ عثمان بن عفان ‘ عبدالرحمٰن بن عوف ‘ زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں انہیں اندر بلا لو۔ آپ کی اجازت پر یہ حضرات داخل ہوئے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ یرفا بھی تھوڑی دیر بیٹھے رہے اور پھر اندر آ کر عرض کیا علی اور عباس رضی اللہ عنہما کو بھی اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں انہیں بھی اندر بلا لو۔ آپ کی اجازت پر یہ حضرات بھی اندر تشریف لے آئے۔ اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ یا امیرالمؤمنین! میرا اور ان کا فیصلہ کر دیجئیے۔ ان حضرات کا جھگڑا اس جائیداد کے بارے میں تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نضیر کے اموال میں سے (خمس کے طور پر) عنایت فرمائی تھی۔ اس پر عثمان اور ان کے ساتھ جو دیگر صحابہ تھے کہنے لگے ‘ ہاں ‘ امیرالمؤمنین! ان حضرات میں فیصلہ فرما دیجئیے اور ہر ایک کو دوسرے کی طرف سے بےفکر کر دیجئیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ اچھا ‘ تو پھر ذرا ٹھہرئیے اور دم لے لیجئے میں آپ لوگوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ جو کچھ ہم (انبیاء) چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ “ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات گرامی بھی تھی۔ ان حضرات نے تصدیق کی ‘ کہ جی ہاں ‘ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ اب عمر رضی اللہ عنہ، علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف مخاطب ہوئے ‘ ان سے پوچھا۔ میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ کیا آپ حضرات کو بھی معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے یا نہیں؟ انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشک ایسا فرمایا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آپ لوگوں سے اس معاملہ کی شرح بیان کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس غنیمت کا ایک مخصوص حصہ مقرر کر دیا تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی دوسرے کو نہیں دیا تھا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی «وما أفاء الله على رسوله منهم» سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «قدير» تک اور وہ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص رہا۔ مگر قسم اللہ کی یہ جائیداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو چھوڑ کر اپنے لیے جوڑ نہ رکھی ‘ نہ خاص اپنے خرچ میں لائے ‘ بلکہ تم ہی لوگوں کو دیں اور تمہارے ہی کاموں میں خرچ کیں۔ یہ جو جائیداد بچ رہی ہے اس میں سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ لیا کرتے اس کے بعد جو باقی بچتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے (جہاد کے سامان فراہم کرنے میں) خیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی زندگی میں ایسا ہی کرتے رہے۔ حاضرین تم کو اللہ کی قسم! کیا تم یہ نہیں جانتے؟ انہوں نے کہا بیشک جانتے ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے کہا میں آپ حضرات سے بھی قسم دے کر پوچھتا ہوں ‘ کیا آپ لوگ یہ نہیں جانتے ہیں؟ (دونوں حضرات نے جواب دیا ہاں!) پھر عمر رضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے اٹھا لیا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں ‘ اور اس لیے انہوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مخلص) جائیداد پر قبضہ کیا اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں مصارف کیا کرتے تھے ‘ وہ کرتے رہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اس طرز عمل میں سچے مخلص ‘ نیکوکار اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے پاس بلا لیا اور اب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نائب مقرر ہوا۔ میری خلافت کو دو سال ہو گئے ہیں۔ اور میں نے بھی اس جائیداد کو اپنی تحویل میں رکھا ہے۔ جو مصارف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں کیا کرتے تھے ویسا ہی میں بھی کرتا رہا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے اس طرز عمل میں سچا ‘ مخلص اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس مجھ سے گفتگو کرنے آئے اور بالاتفاق گفتگو کرنے لگے کہ دونوں کا مقصد ایک تھا۔ جناب عباس! آپ تو اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنے بھتیجے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی میراث کا دعویٰ میرے سامنے پیش کرنا تھا۔ پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنی بیوی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کا دعویٰ پیش کرنا تھا کہ ان کے والد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی میراث انہیں ملنی چاہئے ‘ میں نے آپ دونوں حضرات سے عرض کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرما گئے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی میراث تقسیم نہیں ہوتی ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ پھر مجھ کو یہ مناسب معلوم ہوا کہ میں ان جائیدادوں کو تمہارے قبضے میں دے دوں ‘ تو میں نے تم سے کہا ‘ دیکھو اگر تم چاہو تو میں یہ جائیداد تمہارے سپرد کر دیتا ہوں ‘ لیکن اس عہد اور اس اقرار پر کہ تم اس کی آمدنی سے وہ سب کام کرتے رہو گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی خلافت میں کرتے رہے اور جو کام میں اپنی حکومت کے شروع سے کرتا رہا۔ تم نے اس شرط کو قبول کر کے درخواست کی کہ جائیدادیں ہم کو دے دو۔ میں نے اسی شرط پر دے دی ‘ حاضرین کہو میں نے یہ جائیدادیں اسی شرط پر ان کے حوالے کی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہا ‘ بیشک اسی شرط پر آپ نے دی ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا ‘ میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ میں نے اسی شرط پر یہ جائیدادیں آپ حضرات کے حوالے کی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہا بیشک۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ پھر مجھ سے کس بات کا فیصلہ چاہتے ہو؟ (کیا جائیداد کو تقسیم کرانا چاہتے ہو) قسم اللہ کی! جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں میں تو اس کے سوا اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں۔ ہاں! یہ اور بات ہے کہ اگر تم سے اس کا انتظام نہیں ہو سکتا تو پھر جائیداد میرے سپرد کر دو۔ میں اس کا بھی کام دیکھ لوں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3094]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
2. بَابُ أَدَاءُ الْخُمُسِ مِنَ الدِّينِ:
2. باب: مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرنا دین ایمان میں داخل ہے۔
ہم سے ابونعمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ابوحمزہ ضبعی نے بیان کیا ‘ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد (دربار رسالت میں) حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! ہمارا تعلق قبیلہ ربیعہ سے ہے اور قبیلہ مضر کے کفار ہمارے اور آپ کے بیچ میں بستے ہیں۔ (اس لیے ان کے خطرے کی وجہ سے ہم لوگ) آپ کی خدمت میں صرف ادب والے مہینوں میں حاضر ہو سکتے ہیں۔ آپ ہمیں کوئی ایسا واضح حکم فرما دیں جس پر ہم خود بھی مضبوطی سے قائم رہیں اور جو لوگ ہمارے ساتھ نہیں آ سکے ہیں انہیں بھی بتا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں (میں تمہیں حکم دیتا ہوں) اللہ پر ایمان لانے کا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو گرہ لگائی ‘ نماز قائم کرنے کا ‘ زکوٰۃ دینے کا ‘ رمضان کے روزے رکھنے کا ‘ اور اس بات کا کہ جو کچھ بھی تمہیں غنیمت کا مال ملے۔ اس میں پانچواں حصہ (خمس) اللہ کے لیے نکال دو اور تمہیں میں دبا ‘ نقیر ‘ حنتم اور مزفت کے استعمال سے روکتا ہوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3095]
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک بن انس نے بیان کیا ‘ انہیں ابوالزناد نے بیان کیا ‘ انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میرے وارث میرے بعد ایک دینار بھی نہ بانٹیں (میرا ترکہ تقسیم نہ کریں) میں جو چھوڑ جاؤں اس میں سے میرے عاملوں کی تنخواہ اور میری بیویوں کا خرچ نکال کر باقی سب صدقہ ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3096]
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے ‘ کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا ‘ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو میرے گھر میں آدھے وسق جو کے سوا جو ایک طاق میں رکھے ہوئے تھے اور کوئی چیز ایسی نہیں تھی جو کسی جگر والے (جاندار) کی خوراک بن سکتی۔ میں اسی میں سے کھاتی رہی اور بہت دن گزر گئے۔ پھر میں نے اس میں سے ناپ کر نکالنا شروع کیا تو وہ جلدی ختم ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3097]
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان ثوری نے ‘ کہا کہ مجھ سے ابواسحاق نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے عمرو بن حارث سے سنا ‘ وہ کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی وفات کے بعد) اپنے ہتھیار ‘ ایک سفید خچر ‘ اور ایک زمین جسے آپ خود صدقہ کر گئے تھے ‘ کے سوا اور کوئی ترکہ نہیں چھوڑا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3098]
اور اللہ پاک نے (سورۃ الاحزاب میں) فرمایا «وقرن في بيوتكن»”تم لوگ (ازواج مطہرات) اپنے گھروں ہی میں عزت سے رہا کرو۔“ اور (اسی سورۃ میں فرمایا کہ) «لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم»”نبی کے گھر میں اس وقت تک نہ داخل ہو ‘ جب تک تمہیں اجازت نہ مل جائے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: Q3099]
ہم سے حبان بن موسیٰ اور محمد بن مقاتل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا ہم کو معمر اور یونس نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ (مرض الوفات میں) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بہت بڑھ گیا ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں سے اس کی اجازت چاہی کہ مرض کے دن آپ میرے گھر میں گزاریں۔ لہٰذا اس کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گئی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3099]