حدیث حاشیہ: 1۔
حضرت فاطمہ ؓ کو اس حدیث کا علم نہیں تھا جو حضرت ابو بکر ؓنے پیش کی۔
کہ ہماری جائیداد میں وراثت نہیں چلتی بلکہ وہ صدقہ ہوتی ہے۔
اس بنا پر انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو چھوڑی ہوئی جائیداد سے وراثتی حصہ طلب فرمایا۔
رسول ا للہ ﷺ کی مملوکہ جائیداد کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
قبیلہ بنو نضیر میں منحریق نامی یہودی کے سات باغ تھے اس نے غزوہ احد کے وقت وصیت کی تھی کہ اگر وہ جنگ میں مارا گیا تو اس کے تمام اموال رسول اللہ ﷺ کے ہوں گے۔
چنانچہ وہ اس جنگ میں قتل ہو گیا۔
لہٰذا اس کے تمام باغات رسول اللہ ﷺ کی تحویل میں آگئے۔
انصار نے اپنی کچھ زمینیں رسول اللہ ﷺ کو ہبہ کی تھیں۔
ان تک پانی نہیں پہنچتا تھا وہ بھی آپ کی ملک تھیں۔
بنو نضیر کو جب جلا وطن کیا گیا تو ان کی مملوکہ زمینیں بھی مال فے کے طور پر رسول اللہ ﷺ کے قبضے میں آگئیں۔
فتح خیبر کے بعد اہل فدک نصف زمینیں دینے پر رسول اللہ ﷺسے صلح کر لی تھی
خیبر کے دو قلعے وطیح اور سلالم بھی یہودیوں سے صلح کے نتیجے میں آپ کو ملے تھے۔
خیبر جوبطور شمشیر فتح ہوا تھا اس کے مال غنیمت سے آپ کو پانچواں حصہ ملا تھا وہ بھی آپ کی ملک تھا۔
یہ تمام جائیداد رسول اللہ ﷺ کی تھی اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں تھا۔
رسول اللہ ﷺ اس کی پیداوار سے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا خرچ نکال کرباقی مسلمانوں کی ضروریات میں خرچ کر دیتے تھے۔
(عمدةالقاری: 424/10) 2۔
اگرچہ اس حدیث میں خمس کا ذکر نہیں ہے تاہم صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہےکہ سیدہ فاطمہ ؓنے حضرت ابو بکر ؓسے مدینہ طیبہ کی بطور فے املاک، فدک اور جو کچھ خمس خیبر سے بچا تھا اس سے حصہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4240۔
4241) 3۔
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث عنوان کے مطابق ہے بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ جب سیدہ فاطمہ ؓبیمارہوئیں تو حضرت ابو بکر ؓ ان کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے وہاں آپ نے حضرت فاطمہ ؓ کو مطمئن کر دیا تھا۔
اور وہ راضی ہو گئیں۔
(السنن الکبری: 301/6) 4۔
حدیث کے آخر میں لفظ
(تَعرُوهُ) آیا ہے اسی مناسبت سے امام بخاری ؒنے ایک قرآنی لفظ
(اعْتَرَاكَ) (ھود 11/54) کی لغوی تشریح فرمائی ہے۔
(عمدةالقاري: 424/10)