سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”مجھے اتنا (بلند) مت چڑھاؤ (میری تعریف میں مبالغہ نہ کرو) جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو چڑھا دیا، میں تو اللہ کا بندہ ہوں اور کچھ نہیں پس اس طرح کہو کہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1439]
17. عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1440
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا کہ جب مریم کے بیٹے (عیسیٰ علیہ السلام) تم میں اتریں گے اور تمہارا امام تمہاری قوم میں سے ہو گا۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1440]
18. بنی اسرائیل کے حالات کا بیان۔
حدیث نمبر: 1441
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”دجال جب نکلے گا تو اس کے ساتھ پانی اور آگ دونوں ہوں گے مگر جس کو لوگ آگ سمجھیں گے وہ درحقیقت ٹھنڈا پانی ہو گا اور جس کو لوگ ٹھنڈا پانی سمجھیں گے وہ جلانے والی آگ ہو گی، پس تم میں سے جو کوئی یہ دور پائے تو ظاہر میں جو آگ معلوم ہو اس میں گر پڑے، وہ حقیقت میں ٹھنڈا میٹھا پانی ہے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1441]
حدیث نمبر: 1442
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”(پہلے لوگوں میں سے) ایک شخص مرنے لگا تو جب اپنی زندگی سے ناامید ہو گیا تو اپنے گھر والوں کو یہ وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو بہت ساری لکڑیاں اکٹھا کرنا، پھر آگ سلگانا (مجھے اس میں ڈال دینا) جب آگ میرا گوشت کھا کر ہڈی تک پہنچ جائے اور ہڈی بھی جل کر کوئلہ ہو جائے تو ہڈیاں لے کر خوب پیسنا پھر جس دن زور کی ہوا چلے دیکھتے رہنا، اس دن وہ راکھ دریا میں اڑا دینا (کچھ ہوا میں پھیل جائے اور کچھ سمندر میں) اس کے گھر والوں نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا سارا بدن اکٹھا کر لیا اور اس سے فرمایا: ”تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا کہ پروردگار تیرے ڈر سے۔ پھر اللہ نے اس کو معاف کر دیا۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1442]
حدیث نمبر: 1443
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کے لوگوں پر پیغمبر حکومت کیا کرتے تھے، جب ایک پیغمبر فوت ہو جاتا تو دوسرا اس کا قائم مقام ہوتا مگر میرے بعد کوئی پیغمبر نہ ہو گا البتہ خلیفہ ہوں گے جو (بعد میں) بہت زیادہ بڑھتے جائیں گے۔“ صحابہ نے پوچھا کہ پھر آپ ہمیں ایسے وقت میں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو پہلے خلیفہ ہو جائے (اس سے تم نے بیعت کر لی ہو) تو اس کی بیعت پوری کرو پھر اس کے بعد جو پہلے خلیفہ ہو، (اسی طرح کرتے رہو) ان کا حق (اطاعت) ادا کرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن پوچھے گا کہ انھوں نے رعیت کا حق کیسے ادا کیا؟“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1443]
حدیث نمبر: 1444
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (مسلمان) بھی اگلے لوگوں کی چال پر چلو گے، بالشت برابر بالشت اور ہاتھ برابر ہاتھ، یہاں تک کہ اگر وہ ساہنے کے سوراخ میں (جو نہایت تنگ ہوتا ہے) گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس جاؤ گے۔“ ہم نے عرض کی یا رسول اللہ! اگلے لوگوں سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور کون؟“۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1444]
حدیث نمبر: 1445
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو میری طرف سے (دین کی باتیں) پہنچاؤ، اگرچہ ایک آیت ہی سہی اور بنی اسرائیل سے جو سنو وہ بھی بیان کرو۔ اس میں کوئی حرج نہیں اور جو شخص قصداً میرے اوپر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1445]
حدیث نمبر: 1446
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود اور نصاریٰ بالوں میں خضاب نہیں کرتے تم ان کے خلاف کرو۔ (خضاب کیا کرو)۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1446]
حدیث نمبر: 1447
سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلی امتوں میں ایک شخص تھا، اس کو ایک زخم لگا تو اس نے چھری لے کر اپنا ہاتھ کاٹ ڈلا، خون بہتا رہا (رکا ہی نہیں) یہاں تک کہ وہ مر گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اس شخص نے جلدی کر کے جان دی، میں نے بھی جنت اس پر حرام کر دی۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1447]
حدیث نمبر: 1448
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک جزامی (کوڑھی)، ایک گنجا اور ایک اندھا۔ اللہ نے ان تینوں کو آزمانا چاہا، ایک فرشتے کو ان کی طرف بھجوایا۔ وہ جذامی کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا کہ اچھا رنگ اور اچھی جلد۔ (کیونکہ اس حال میں) لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیر دیا تو کوڑھ دور ہو گیا اور (کے بدن) کا رنگ اچھا ہو گیا، کھال بھی اچھی ہو گئی۔ پھر فرشتے نے پوچھا تجھے دنیا کے مالوں میں سے کون سا مال بہت زیادہ پسند ہے؟ وہ کہنے لگا کہ اونٹ یا اس نے گائے کہی، (اسحاق بن عبداللہ راوی کو) اس میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی۔ چنانچہ اسے دس مہینے کی گابھن اونٹنی دی گئی اور فرشتے نے کہا کہ اللہ تجھے اس میں برکت دے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا کہ اچھے بال، یہ گنجا پن دور ہو جائے۔ (کیونکہ) لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو گنجا پن ختم ہو گیا اور بہت اچھے بال نکل آئے۔ پھر فرشتے نے کہا دنیا کا کون سا مال تجھے زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا گائے، فرشتے نے ایک گابھن گائے اس کو دی اور کہا کہ اللہ تجھے اس میں برکت دے گا۔ پھر وہ فرشتہ اندھے کے پاس گیا اور پوچھا کہ تو کیا چاہتا ہے؟ کہنے لگا کہ اللہ مجھے میری بینائی واپس کر دے تاکہ لوگوں کو دیکھوں، فرشتے نے اس (کی آنکھوں) پر ہاتھ پھیرا تو اللہ نے اس کی بینائی لوٹا دی، فرشتے نے کہا کہ تجھے کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا کہ بکریاں۔ فرشتے نے اسے ایک جننے والی بکری دی۔ پھر اونٹنیاں اور گائے بکریاں بھی جنیں تو جذامی کے پاس اونٹوں کا اور گنجے کے پاس گایوں کا اور اندھے کے پاس بکریوں کا ایک جنگل ہو گیا۔ پھر (وہی فرشتہ) اپنی اسی صورت اور شکل میں (جس میں پہلے آیا تھا) جذامی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک محتاج آدمی ہوں سفر میں میرا سارا سامان جاتا رہا، اب میں اللہ کی مدد اور اس کے بعد تیری عنایت کے بغیر اپنے ٹھکانے پر نہیں پہنچ سکتا۔ میں تجھ سے اس ذات (اللہ) کے نام پر سوال کرتا ہوں جس نے تیرے بدن کا رنگ اچھا کر دیا۔ تیری جلد اچھی کر دی اور تجھے مال دیا، مجھے ایک اونٹ دے جس پر میں سفر میں سوار ہو کر اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاؤں۔ جذامی نے اسے جواب دیا کہ بہت آدمیوں کا (قرض) دینا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ گویا میں تجھے پہچانتا ہوں، کیا تو کوڑھی نہ تھا، سب لوگ تجھ سے نفرت کرتے تھے اور تو محتاج تھا تو اللہ نے تجھے یہ سب عنایت کیا؟ جذامی نے کہا کہ میں تو بزرگوں کے وقت سے مالدار چلا آتا ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹ بولتا ہے تو اللہ پھر تجھے ویسا ہی (کوڑھی) کر دے۔ پھر وہ فرشتہ اسی شکل اور صورت میں گنجے کے پاس گیا اور اس سے بھی وہی کہا جو کوڑھی سے کہا تھا تو اس نے بھی ویسا ہی جواب دیا، تو فرشتے نے کہا کہ اگر تو جھوٹ بولتا ہے تو اللہ پھر تجھے ویسا ہی کر دے۔ پھر وہ فرشتہ اپنی اسی شکل میں اندھے کے پاس گیا اور کہا کہ میں ایک محتاج اور مسافر آدمی ہوں اور میرے پاس سفر کا سامان بالکل نہیں رہا، اب بغیر اللہ کی مدد اور تیری توجہ کے میں اپنے وطن نہیں پہنچ سکتا، مجھے اس اللہ کے نام پر جس نے تیری آنکھیں (دوبارہ) روشن کیں ایک بکری دیدے جس سے میں سفر میں اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاؤں۔ اندھے نے کہا کہ بیشک میں اندھا تھا، اللہ نے مجھے بینائی دی محتاج تھا، مجھے مالدار کر دیا (اس کے نام پر تو مانگتا ہے) جو تیرا جی چاہے وہ لے لے، میں آج تجھے تنگ نہیں کرنے کا، فرشتے نے کہا (میں محتاج نہیں ہوں) تو بکریاں رہنے دے، اللہ نے تم تینوں کو آزمایا تھا، تجھ سے تو خوش ہوا اور تیرے دونوں ساتھیوں (کوڑھے اور گنجے) سے ناراض۔“[مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1448]