الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


سلسله احاديث صحيحه کل احادیث (4103)
حدیث نمبر سے تلاش:

سلسله احاديث صحيحه
सिलसिला अहादीस सहीहा
السيرة النبوية وفيها الشمائل
سیرت نبوی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات و اطوار
2674. ہر مسلمان پناہ دے سکتا ہے
حدیث نمبر: 4063
-" يا أم هانئ! قد أجرنا من أجرت، وأمنا من أمنت".
سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے فتح مکہ والے دن اپنے سسرال کے دو آدمیوں کو پناہ دی اور ا‏‏‏‏ن کو گھر میں داخل کر کے دروازہ بند کر دیا۔ میری ماں کا بیٹا علی بن ابوطالب آیا اور ا‏‏‏‏ن دونوں پر تلوار سونت لی۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلی گئی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہ تھے، البتہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا موجود تھیں، لیکن وہ مجھ پر اپنے خادند سے بھی زیادہ سخت تھیں۔ اچانک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ پر غبار کے اثرات تھے۔ جب میں نے آپ کو ساری بات بتلائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام ہانی! جس کو تو نے پناہ دی ا‏‏‏‏س کو ہم نے پناہ دی اور جس کو تو نے امن دیا ا‏‏‏‏س کو ہم نے امن دیا۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4063]
2675. فقرا صحابہ کا مقام و مرتبہ
حدیث نمبر: 4064
- (مرَّ الملأ من قريش على رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؛ وعنده صهيب، وبلال، وعمار، وخباب، ونحوهم من ضعفاء المسلمين، فقالوا: يا محمد! اطردهم، أرضيت هؤلاء من قومك، أفنحن نكون تبعاً لهؤلاء؟! أهؤلاء منَّ الله عليهم من بيننا؟! فَلَعَلَّكَ إن طردتهم أن نأتيك! قال: فنزلت: (ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشيِّ يريدون وجهه ما عليك من حسابهم من شيء وما من حسابك عليهم من شيء فتطردهم فتكون من الظالمين)).
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قریش کے سردار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے اور آپ کے پاس صہیب، بلال، عمار، خباب رضی اللہ عنہم اور ان جیسے کمزور مسلمانوں میں سے کچھ افراد بیٹھے ہوئے تھے، قریش کے سرداروں نے کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان کو دھتکار دے، کیا تو اپنی قوم میں سے ان پر راضی ہو گیا ہے؟ کیا ہم ان لوگوں کے پیروکار ہوں گے؟ کیا ہم میں سے اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان کیا ہے؟ اگر تو ان کو دھتکار دے تو شاید ہم تیرے پاس آیا کریں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: (‏‏‏‏اے محمد!) جو صبح شام اللہ کی خوشنودی کے لیے ا‏‏‏‏سے پکارتے ہیں ا‏‏‏‏ن کو نہ دھتکارنا۔ ا‏‏‏‏ن کے حساب میں سے نہ کچھ تیرے ذمہ ہے اور نہ تیرے حساب میں سے کچھ ا‏‏‏‏ن کے ذمے ہے۔ اگر آپ نے ا‏‏‏‏ن کو دھتکارا تو آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4064]
2676. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقام
حدیث نمبر: 4065
- (يا ربيعةُ! ما لك وللصِّدِّيقِ؟ قلتُ: يا رسول الله! كان كذا، وكان كذا، فقال لي كلمةًً كرهتُها، فقال لي: قل كما قلتُ لك حتى يكون قصاصاً، [فأبيتُ]؟! فقال رسول الله: أجل، فلا تردَّ عليه، ولكن قل: غفر الله لك يا أبا بكر!).
سیدنا ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا، آپ نے مجھے زمین دی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی زمین دی۔ ہم پر دنیا غالب آ گئی، کھجور کے ایک درخت کے بارے میں ہمارا جھگڑا ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ میری زمین کی حد میں ہے۔ میں نے کہا: یہ میری حد میں ہے۔ میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے درمیان سخت کلامی ہوئی، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسا کلمہ کہا جس کو میں نے ناپسند کیا اور وہ خود بھی شرمندہ ہوئے۔ (‏‏‏‏بالآخر) انہوں نے مجھے کہا: اے ربیعہ! مجھے یہی کلمہ کہو تاکہ بدلہ ہو جائے۔ لیکن میں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تجھے ضرور کہنا پڑے گا، ورنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کروں گا۔ میں نے کہا میں ایسا (‏‏‏‏جملہ) نہیں کہوں گا۔ ربیعہ کہتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ زمین چھوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیے، میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔ بنو اسلم قبیلہ کے چند لوگ آئے اور انہوں نے کہا: اﷲ، ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، بھلا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس چیز کے متعلق تیرے خلاف فریاد کریں گے۔ حالانکہ انہوں نے تجھے ایسے ایسے بھی کہا ہے۔ میں نے کہا: تم جانتے ہو کہ یہ کون ہے؟ یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، (‏‏‏‏غار ثور) میں دو میں سے دوسرے وہ تھے اور وہ مسلمانوں کے بزرگ ہیں۔ پس تم بچو (‏‏‏‏کہیں ایسا نہ ہو) کہ وہ تم کو اپنے خلاف میری مدد کرتے ہوئے دیکھ کر غصے ہو جائیں، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائے اور آپ اس کے غصے کی وجہ سے ناراض ہو جائیں اور پھر اللہ تعالیٰ ان دونوں کی ناراضگی کی وجہ سے ناراض ہو جائیں اور ربیعہ ہلاک ہو جائے۔ انہوں نے کہا: تو (‏‏‏‏پھر ایسے میں) تم ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ اس نے کہا: تم چلے جاؤ۔ (‏‏‏‏اب ہوا یوں کہ) ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے اور میں بھی اکیلا ان کے پیچھے چل پڑا۔ پس وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور جیسی بات تھی ویسے ہی بیان کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر میری طرف اٹھایا اور فرمایا: اے ربعیہ تیرے اور صدیق کے مابین کیا معاملہ ہے؟ میں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! معاملہ تو ایسے ایسے تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایسا کلمہ کہا جس کو میں نے ناپسند کیا، پھر انہوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ میں بھی ان کو وہی بات کہہ دوں تاکہ لے پلے ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏ٹھیک ہے، اب تم نے (‏‏‏‏ قصاصاً) وہ بات نہیں دوہرانی، بلکہ یوں کہنا ہے: اے ابوبکر! اللہ تجھے معاف کرے۔ اے ابوبکر! اللہ تجھے معاف کرے۔ ‏‏‏‏ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے تو وہ رو رہے تھے۔ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4065]
2677. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سال پہلے اپنی وفات کی پیش گوئی کر دی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی مشروعیت
حدیث نمبر: 4066
-" يا معاذ! إنك عسى أن لا تلقاني بعد عامي هذا، [أ] ولعلك أن تمر بمسجدي [هذا أ] وقبري".
عاصم بن حمید سکونی سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو (‏‏‏‏یمن کی طرف) بھیجا تو وصیت کرتے ہوئے ا‏‏‏‏ن کے ساتھ نکلے، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سوار تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ا‏‏‏‏ن کی سواری کے ساتھ چل رہے تھے۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: ‏‏‏‏معاذ! شاید اس سال کے بعد تو مجھ سے ملاقات نہ کر سکے، لیکن ممکن ہے کہ تو میری مسجد یا میری قبر کے پاس سے گزرے۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کی وجہ سے گھبرا گئے اور رونا شروع کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏معاذ! نہ روؤ، بیشک رونا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ ‏‏‏‏ [سلسله احاديث صحيحه/السيرة النبوية وفيها الشمائل/حدیث: 4066]

Previous    1    2    3    4    5