2266. سیدنا دحیہ کلبی اور سیدنا عروہ رضی اللہ عنہما جبریل اور عیسی علیہما السلام کے مشابہ
حدیث نمبر: 3446
-" دحية الكلبي يشبه جبرائيل وعروة بن مسعود الثقفي يشبه عيسى بن مريم وعبد العزى يشبه الدجال".
عامر شعبی کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوامیہ کے تین افراد کو تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا: ”دحیہ کلبی جبریل کے مشابہ ہے، عروہ بن مسعود ثقفی عیسیٰ بن مریم کے مشابہ ہے اور عبدالعزی دجال کے مشابہ ہے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3446]
2267. سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت
حدیث نمبر: 3447
-" دخلت الجنة فاستقبلتني جارية شابة، فقلت: لمن أنت؟ قالت: أنا لزيد بن حارثة".
عبداللہ بن بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت میں داخل ہوا، ایک نوجوان لڑکی نے میرا استقبال کیا، میں نے اسے کہا: تو کس کے لیے ہے؟ اس نے کہا: میں زید بن حارثہ کے لیے ہوں۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3447]
2268. سیدنا حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت
حدیث نمبر: 3448
-" دخلت الجنة فسمعت فيها قراءة، قلت: من هذا؟ فقالوا: حارثة بن النعمان، كذلكم البر كذلكم البر (وكان أبر الناس بأمه)".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت میں داخل ہوا، میں نے وہاں قرأت کی آواز سنی۔ میں نے پوچھا: (جس کی آواز آ رہی ہے) وہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: حارثہ بن نعمان ہے۔ یہی نیکی ( اور حسن سلوک) ہے، یہی نیکی اور ( حسن سلوک) ہے، وہ ( حارثہ) اپنی ماں کے ساتھ بہت زیادہ حسن سلوک کرنے والا تھا۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3448]
2269. ورقہ کی فضیلت
حدیث نمبر: 3449
-" لا تسبوا ورقة فإني رأيت له جنة أو جنتين".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ورقہ کو گالیاں نہ دیا کرو، کیونکہ میں نے اس کے لیے ایک باغ یا دو باغ دیکھے ہیں۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3449]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاتم کا تذکرہ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آدمی جس کام کا ارادہ کر لیتا، اسے پا لیتا تھا۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3450]
2271. ہجرت کے بعد کس چیز پر بیعت ہو گی؟
حدیث نمبر: 3451
-" ذهب أهل الهجرة بما فيها".
سیدنا مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں فتح مکہ کے بعد اپنے بھائی کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے بھائی مجالد کو آپ کے پاس لایا ہوں تاکہ آپ اس سے ہجرت پر بیعت لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہجرت والے تو ہجرت کا اجر و ثواب وصول کر کے سبقت لے جا چکے ہیں۔“ میں نے کہا: تو پھر آپ اس سے کس چیز پر بیعت لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس سے اسلام، ایمان اور جہاد پر بیعت لوں گا۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3451]
2272. سیدنا عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ کی فضیلت
حدیث نمبر: 3452
-" ذهبت بي أمي إلى النبي صلى الله عليه وسلم [وأنا غلام] فمسح على رأسي، ودعا لي بالرزق، [وفي رواية: بالبركة]".
سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں، میں اس وقت بچہ تھا، آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے رزق یا برکت کی دعا کی۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3452]
2273. سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے خاندان کی فضیلت
حدیث نمبر: 3453
-" لو كان الإيمان عند الثريا لناله رجال من هؤلاء. يعني سلمان الفارسي".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، اچانک آپ پر سورۃ الجمعہ نازل ہوئی، جب آپ نے ”اور دوسروں کے لیے بھی انہی میں سے جو اب تک ان سے نہیں ملے۔“(سورۂ جمعہ: 3) والی آیت کی تلاوت فرمائی تو ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس سے مراد کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا، حتیٰ کہ اس نے دو تین دفعہ یہی سوال دہرایا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ” ہم میں سلمان فارسی بھی موجود تھے۔ ” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان رضی اللہ عنہ پر رکھا اور فرمایا: ”اگر ایمان ثریا ستارے میں ہوتا تو اس کے خاندان کے لوگ اس تک رسائی حاصل کر لیتے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3453]
2274. سیدنا سلمان فارسی کا ایمان لانے کا واقعہ، تلاش حق کے لیے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا سفر نامہ
حدیث نمبر: 3454
-" أعينوا أخاكم. يعني سلمان في مكاتبته".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مجھے اپنا واقعہ اپنی زبانی یوں بیان کیا، وہ کہتے ہیں: میں اصبہان کا ایک فارسی باشندہ تھا، میرا تعلق ان کی ایک جیی نامی بستی سے تھا، میرے باپ اپنی بستی کے بہت بڑے کسان تھے اور میں اپنے باپ کے ہاں اللہ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب تھا۔ میرے ساتھ ان کی محبت قائم رہی حتیٰ کہ انہوں نے مجھے گھر میں آگ کے پاس ہمیشہ رہنے والے کی حیثیت سے پابند کر دیا، جیسے لڑکی کو پابند کر دیا جاتا ہے۔ میں نے مجوسیت میں بڑی جدوجہد سے کام لیا، حتیٰ کہ میں آگ کا ایسا خادم و مصاحب بنا کہ ہر وقت اس کو جلاتا رہتا تھا اور ایک لمحہ کے لیے بھی اسے بجھنے نہ دیتا تھا۔ میرے باپ کی ایک بڑی عظیم جائیداد تھی، انہوں نے ایک دن ایک عمارت (کے سلسلہ میں) مصروف ہونے کی وجہ سے مجھے کہا: بیٹا! میں تو آج اس عمارت میں مشغول ہو گیا ہوں اور اپنی جائیداد (تک نہیں پہنچ پاؤں گا)، اس لیے تم چلے جاؤ اور ذرا دیکھ کر آؤ۔ انہوں نے اس کے بارے میں مزید چند ( احکام بھی) صادر کئے تھے۔ پس میں اس جاگیر کے لیے نکل پڑا، میرا گزر عیسائیوں کے ایک گرجا گھر کے پاس سے ہوا، میں نے ان کی آوازیں سنیں وہ نماز ادا کر رہے تھے۔ مجھے یہ علم نہ ہو سکا کہ عوام الناس کا کیا معاملہ ہے کہ میرے باپ نے مجھے اپنے گھر میں پابند کر رکھا ہے۔ (بہرحال) جب میں ان کے پاس سے گزرا اور ان کی آوازیں سنیں تو میں ان کے پاس چلا گیا اور ان کی نقل و حرکت دیکھنے لگ گیا۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو مجھے ان کی نماز پسند آئی اور میں ان کے دین کی طرف راغب ہوا اور میں نے کہا: بخدا! یہ دین اس (مجوسیت) سے بہتر ہے جس پر ہم کاربند ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا: اس دین کی بنیاد کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: شام میں۔ پھر میں اپنے باپ کی طرف واپس آ گیا، (چونکہ مجھے تاخیر ہو گئی تھی اس لیے) انہوں نے مجھے بلانے کے لیے کچھ لوگوں کو بھی میرے پیچھے بھیج دیا تھا۔ میں اس مصروفیت کی وجہ سے ان کے مکمل کام کی (طرف کوئی توجہ نہ دھر سکا)۔ جب میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا: بیٹا! آپ کہاں تھے؟ کیا میں نے ایک ذمہ داری آپ کے سپرد نہیں کی تھی؟ میں نے کہا: ابا جان! میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا، وہ گرجا گھر میں نماز پڑھ رہے تھے، مجھے ان کی کاروائی بڑی پسند آئی۔ اللہ کی قسم! میں ان کے پاس ہی رہا، حتیٰ کہ سورج غروب ہو گیا۔ میرے باپ نے کہا: بیٹا! اس دین میں کوئی خیر نہیں ہے، تمہارا اور تمہارے آبا کا دین اس سے بہتر ہے۔ میں نے کہا: بخدا! ہرگز نہیں، وہ دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔ (میرے ان جذبات کی وجہ سے) میرے باپ کو میرے بارے میں خطرہ لاحق ہوا اور انہوں نے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر مجھے گھر میں پابند کر دیا۔ میں نے عیسائیوں کی طرف پیغام بھیجا کہ جب شام سے تاجروں کا عیسائی قافلہ آئے تو مجھے خبر دینا۔ (کچھ ایام کے بعد) جب شام سے عیسائیوں کا تجارتی قافلہ پہنچا تو انہوں نے مجھے اس (کی آمد) کی اطلاع دی۔ میں نے ان سے کہا: جب (اس قافلے کے) لوگ اپنی ضروریات پوری کر کے اپنے ملک کی طرف واپس لوٹنا چاہیں تو مجھے بتلا دینا۔ سو جب انھوں نے واپس جانا چاہا تو انہوں نے مجھے اطلاع دے دی۔ میں نے اپنے پاؤں سے بیڑیاں اتار پهینکیں اور ان کے ساتھ نکل پڑا اور شام پہنچ گیا۔ جب میں شام پہنچا تو پوچھا: وہ کون سے شخصیت ہے جو اس دین والوں میں افضل ہے؟ انہوں نے کہا: فلاں گرجا گھر میں ایک پادری ہے۔ میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا: میں اس دین (نصرانیت) کی طرف راغب ہوا ہوں، اب میں چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس رہوں اور گرجا گھر میں آپ کی خدمت کروں اور آپ سے تعلیم حاصل کروں اور آپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ اس نے کہا: (ٹھیک ہے) آ جاؤ۔ پس میں اس میں داخل ہو گیا۔ لیکن وه بڑا برا آدمی تھا۔ وه لوگوں کو صدقہ کرنے کا حكم دیتا تها اور ان کو ترغیب دلاتا تها۔ جب وه کئی اشیاء لے کر آتے تھے، تو وه اپنے لیے جمع کر لیتا تھا اور مساکین کو کچھ بھی نہیں دیتا تھا، حتیٰ کہ اس کے پاس سونے اور چاندی کے سات مٹکے جمع ہو گئے۔ میں اس کے کرتوتوں کی بناء پر اس سے نفرت کرتا تھا۔ بالآخر وہ مر گیا، اسے دفن کرنے کے لیے عیسائی لوگ پہنچ گئے۔ میں نے ان سے کہا: یہ تو برا آدمی تھا، یہ تم لوگوں کو تو صدقہ کرنے کا حکم دیتا اور اس کی ترغیب دلاتا تھا، لیکن جب تم لوگ اس کے پاس صدقہ جمع کرواتے تھے تو یہ اسے اپنے لیے ذخیرہ کر لیتا تھا اور مساکین کو بلکل نہیں دیتا تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: تجھے کیسے علم ہوا؟ میں نے کہا: میں تمہیں اس کے خزانے کی خبر دے سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا: تو پھر ہمیں بتاؤ۔ پس میں نے ان کو (اس خزانے کا) مقام دکھایا انہوں نے وہاں سے سونے اور چاندی کے بھرے ہوئے سات مٹکے نکالے۔ جب انہوں نے صدقے (کا یہ حشر) دیکھا تو کہنے لگے: بخدا! ہم اس کو کبھی بھی دفن نہیں کریں گے۔ سو انہوں نے اس کو سولی پر لٹکایا اور پھر پتھروں سے اس کو سنگسار کیا۔ بعد ازاں وہ اس کی جگہ ایک اور آدمی لے آئے۔ سلمان کہتے ہیں: جو لوگ پانچ نمازیں ادا کرتے تھے، میں نے اس کو ان میں افضل پایا۔ میں نے اسے دنیا سے سب سے زیادہ بے رغبت، آخرت کے معاملے میں سب سے زیادہ رغبت والا اور دن ہو یا رات (عبادت کے معاملات کو) تندہی سے ادا کرنے والا پایا۔ میں نے اس سے ایسی محبت کی کہ اس سے پہلے اس قسم کی محبت کسی سے نہیں کی تھی۔ میں اسی کے ساتھ کچھ زمانہ تک مقیم رہا۔ بالآخر اس کی وفات کا وقت قریب آ پہنچا۔ میں نے اسے کہا: اے فلان! میں تیرے ساتھ رہا اور میں نے تجھ سے ایسی محبت کی کہ اس سے قبل اس قسم کی محبت کسی سے نہیں کی تھی۔ اب تیرے پاس اللہ تعالیٰ کا حکم ( موت) آپہنچا ہے، تو خود بھی محسوس کر رہا ہے۔ اب تو مجھے کسی بندہ ( خدا) کے پاس جانے کی نصیحت کرے گا؟ اور مجھے کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹے! اللہ کی قسم! میں جس دین پر پابند تھا، میرے علم کے مطابق کوئی بھی اس دین کا پیروکار نہیں ہے۔ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں اور تبدیل ہو گئے ہیں اور جس شریعت کو اپنا رکھا تھا اس کے اکثر امور کو ترک کر دیا ہے۔ ہاں ایک آدمی موصل میں ہے۔ وہ بھی اسی دین پر کاربند ہے، پس تو اس کے پاس چلے جانا۔ جب وہ فوت ہو گیا اور اسے دفن کر دیا گیا تو میں موصل والے آدمی کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اسے کہا: اے فلاں! فلاں آدمی نے موت کے وقت مجھے وصیت کی تھی کہ میں تجھ سے آ ملوں۔ اس نے مجھے بتلایا تھا کہ تم بھی اس کے دین پر کاربند ہو۔ اس نے مجھے کہا: (ٹھیک ہے) تم میرے پاس ٹھہر سکتے ہو۔ پس میں نے اس کے پاس اقامت اختیار کی، میں نے اسے بہترین آدمی پایا جو اپنے ساتھی کے دین پر برقرار تھا۔ (کچھ عرصے کے بعد اس پر بھی) فوت ہونے کے آثار (دکھائی دینے لگے)۔ جب اس پر وفات کی گھڑی آ پہنچی تو میں نے کہا: اے فلاں! فلاں نے تو مجھے تیرے بارے میں وصیت کی تھی اور مجھے حکم دیا تھا کہ تیری صحبت میں رہوں۔ اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ تجھ پر نازل ہونے والا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے۔ لہٰذا مجھے کیا وصیت کرے گا اور کیا حکم دے گا کہ میں کس کے پاس جاؤں؟ اس نے کہا: بیٹا! اللہ کی قسم! میرے علم کے مطابق تو ہمارے دین پر قائم صرف ایک آدمی ہے، جو نصیبین میں ہے۔ (میری وفات کے بعد) اس کے پاس چلے جانا۔ پس جب وه فوت ہوا اور اسے دفن کر دیا گیا تو میں نصیبین والے صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ میں اس کے پاس آیا اور اسے اپنے بارے میں اور اپنے (رہنما) کے حکم کے بارے میں مطلع کیا۔ اس نے کہا: میر ے پاس ٹھہرئیے۔ سو میں اس کے پاس ٹھہر گیا۔ میں نے اس کو اس کے سابقہ دونوں صاحبوں کے دین پر پایا۔ وہ بہترین آدمی تھا جس کے پاس میں نے اقامت اختیار کی۔ لیکن اللہ کی قسم! وہ جلد ہی مرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو میں نے اسے کہا: اے فلاں! فلاں (اللہ کے بندے) نے مجھے فلاں کی (صحبت میں رہنے کی) نصیحت کی تھی، پھر اس نے تیرے پاس آنے کی نصیحت کی۔ اب تو مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرے گا یا کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹے! ہم تو ایسے آدمی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے، جو ہمارے دین پر قائم ہو، کہ تو اس کے پاس جا سکے۔ البتہ ایک آدمی عموریہ میں ہے۔ وہ دین کے معاملے میں ہماری طرح کا ہے۔ اگر تو چاہتا ہے تو اس کے پاس چلے جانا، کیونکہ وہ ہمارے دین پر برقرار ہے۔ پس جب وہ بھی مر گیا اور اسے دفن کر دیا گیا، تو میں عموریہ والے (بندہ خدا) پاس پہنچ گیا اور اسے اپنا سارا ماجرا سنایا۔ اس نے کہا: تم میرے پاس ٹھہرو۔ میں نے اس کی صحبت اختیا کر لی اور اسے اس کے اصحاب کی سیرت اور دین پر پایا۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کے پاس رہ کر کمائی بھی کی، حتیٰ کہ میں کچھ گائیوں اور بکریوں کا مالک بن گیا۔ لیکن اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہونے لگا ( کی علامات دکھائی دینے لگیں)۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آپہنچا تو میں نے اسے کہا: اے فلاں! میں فلاں (بندہ خدا) کے پاس تھا، فلاں نے مجھے فلاں کے بارے میں، فلاں نے فلاں کے بارے میں اور اس نے تیرے پاس آنے کی وصیت کی تھی۔ اب تو مجھے کس (کی صحبت میں رہنے) کی وصیت کرے گا؟ اور مجھے کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹا! میں تو کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو ہمارے دین پر کاربند ہو اور جس کے بارے میں میں تجھے حکم دے سکوں۔ لیکن اب ایک نبی کی آمد کا وقت قریب آ چکا ہے، اسے دین ابراہیمی کے ساتھ مبعوث کیا جائے گا، وہ عربوں کی سرزمین سے ظاہر ہو گا اور ایسے (شہر) کی طرف ہجرت کرے گا جو دو حروں (یعنی کالے پتھر والی زمینوں) کے درمیان میں ہو گا اور ان کے درمیان کھجوروں کے درخت ہوں گے۔ اس کی اور علامات بھی ہوں گی، جو مخفی نہیں ہوں گی۔ وہ ہدیہ (یعنی بطور تحفہ دی گئی چیز) کھائے گا، صدقہ نہیں کھائے گا اور اس کے کندھوں کے درمیان مہر ختم نبوت ہو گی۔ اگر تجھے استطاعت ہے تو (عرب کے) ان علاقوں تک پہنچ جا۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر وہ فوت ہو گیا اور اسے دفن کر دیا گیا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور تھا، میں عموریہ میں سکونت پذیر رہا۔ پھر میرے پاس سے بنوکلب قبیلے کا ایک تجارتی قافلہ گزرا۔ میں نے ان سے کہا: اگر تم مجھے سرزمین عرب کی طرف لے جاؤ تو میں تم کو اپنی گائیں اور بکریاں دے دوں گا؟ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ پس میں نے اپنی گائیں اور بکریاں ان کو دے دیں اور انہوں نے مجھے اپنے ساتھ ملا لیا۔ جب وہ مجھے وادئ قری تک لے کر پہنچے تو انہوں نے مجھ پر ظلم کیا اور بطور غلام ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ پس میں اس کے پاس ٹھہر گیا۔ جب میں نے کھجوروں کے درخت دیکھے تو مجھے امید ہونے لگی کہ یہ وہی شہر ہے جو میرے ساتھی نے بیان کیا تھا، لیکن یقین نہیں آ رہا تھا۔ ایک دن اس یہودی کا چچا زاد بھائی، جس کا تعلق بنو قریظہ سے تھا، مدینہ سے اس کے پاس آیا اور مجھے خرید کر اپنے پاس مدینہ میں لے گیا۔ اللہ کی قسم! جب میں نے مدینہ کو دیکھا تو اپنے ساتھی کی بیان کردہ علامات کی روشنی میں اس کو پہچان گیا (کہ یہی خاتم النبیین کا مسکن ہو گا)۔ میں وہاں فروکش ہو گیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مکہ مکرمہ میں مبعوث کر دیا، جتنے دن انہوں نے وہاں ٹہرنا تھا، وہ ٹہرے۔ لیکن میں نے ان (کی آمد) کا کوئی تذکرہ نہیں سنا، دوسری بات یہ بھی ہے کہ میں غلامی والے شغل میں مصروف رہتا تھا بلآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے۔ اللہ کی قسم! (ایک دن) میں اپنے آقا کے پھل دار کھجور کے درخت کی چوٹی پر کوئی کام کر رہا تھا، میرا مالک بیٹھا ہوا تھا اس کا چچا زاد بھائی اچانک اس کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ تعالیٰ بنو قیلہ کو ہلاک کرے، وہ قباء میں مکہ سے آنے والے ایک آدمی کے پاس جمع ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ نبی ہو۔ جب میں نے اس کی یہ بات سنی تو مجھ پر اس قدر کپکپی طاری ہو گئی کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ اپنے مالک پر گر جاؤں گا۔ میں کھجور کے درخت سے اترا اور اس کے چچا زاد بھائی سے کہنے لگا: تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس بات سے میرے آقا کو غصہ آیا اور اس نے مجھے زور سے مکا مارا اور کہا: تیرا اس بات سے کیا تعلق ہے۔ جا، اپنا کام کر۔ میں نے کہا: کوئی تعلق نہیں، بس ذرا بات کی چھان بین کرنا چاہتا تھا۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے پاس میرا جمع کیا ہوا کچھ مال تھا۔ جب شام ہوئی تو میں نے وہ مال لیا اور قباء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر داخل ہوا اور کہا: مجھے یہ بات موصول ہوئی ہے کہ آپ کوئی صالح آدمی ہیں اور آپ کے اصحاب غریب اور حاجتمند لوگ ہیں۔ یہ میرے پاس کچھ صدقے کا مال ہے، میں نے آپ لوگوں کو ہی اس کا زیادہ مستحق سمجھا ہے۔ پھر میں نے وہ مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ”تم لوگ کھا لو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا ہاتھ روک لیا اور نہ کھایا۔ میں نے دل میں کہا کہ (اس بندہ خدا کے نبی ہونے کی) ایک نشانی تو (پوری ہو گئی ہے)۔ پھر میں چلا گیا اور مزید کچھ مال جمع کیا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں منتقل ہو چکے تھے۔ پھر (وہ مال لے کر) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میرا آپ کے بارے میں خیال ہے کہ آپ صدقے کا مال نہیں کھاتے، اس لیے یہ ہدیہ (یعنی تحفہ) ہے، میں اس کے ذریعے آپ کی عزت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چیز خود بھی کھائی اور اپنے صحابہ کو بھی کھانے کا حکم دیا، سو انہوں نے بھی کھائی۔ (یہ منظر دیکھ کر) میں نے دل میں کہا: دو علامتیں (پوری ہو گئیں ہیں)۔ ( سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں (تیسر ی دفعہ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو وہ ”بقیع الغرقد“ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی صحابی کے جنازے کی خاطر وہاں آئے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دو چادریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا، پھر آپ کی پیٹھ پر نظر ڈالنے کے لیے گھوما، تاکہ (دیکھ سکوں کہ) آیا وہ (ختم نبوت والی) مہر بھی ہے، جس کی پیشن گوئی میرے ساتھی نے کی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے گھومتے ہوئے دیکھا تو آپ پہچان گئے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی وصف کی جستجو میں ہوں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اپنی پیٹھ سے ہٹا دی، میں نے مہر نبوت دیکھی اور اسے پہچان گیا۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑا اور آپ کے بوسے لینے اور رونے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”پیچھے ہٹو۔“ پس میں پیچھے ہٹ گیا۔ اے ابن عباس! پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سارا ماجرا اسی طرح سنایا، جسے تجھے سنایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات اچھی لگی کہ یہ واقعہ آپ کے صحابہ بھی سنیں۔ پھر سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ غلامی کی وجہ سے مشغول رہے اور غزوہ بدر اور غزوہ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہ ہو سکے۔ ( سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:) ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”سلمان! (اپنے مالک سے) مکاتبت کر لو۔“ پس میں نے اپنے آقا سے اس بات پر مکاتبت کر لی کہ میں اس کے لیے تین سو کھجور کے چھوٹے درخت زمین سے اکھاڑ کر اس کی جگہ پر لگاؤں گا اور (مزید اسے) چالیس اوقیے دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی ( سلمان) کی مدد کرو۔ لوگوں نے مدد کرتے ہوئے مجھے کھجوروں کے درخت دیے۔ کسی نے تیس کسی نے بیس کسی پندرہ کسی نے اپنی استطاعت کے بقدر مجھے کھجوروں کے چھوٹے درخت دیے، حتیٰ کہ میر ے پاس تین سو کھجور کے در خت جمع ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ” سلمان! جاؤ اور گڑ ھے کھودو۔ جب فارغ ہو جاؤ تو میر ے پاس آ جانا، ( یہ پو دے) میں خود لگاؤں گا۔ ” ( سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:) میں نے گڑھے کھودے، میرے ساتھیوں نے میری معاونت کی۔ جب میں فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اطلاع دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ نکلے ہم (کھجوروں کے وہ) پودے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کرتے تھے اور آپ اپنے ہاتھ سے ان کو لگا دیتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے! ان میں سے کھجور کا ایک پودا بھی نہ مرا۔ اب میں کھجور کے چھوٹے درخت تو لگا چکا تھا اور (چالیس اوقیوں والا) مال باقی تھا۔ کسی غزوے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مرغی کے انڈے کے بقدر سونا لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”مکاتبت کرنے والا (سلمان) فارسی کیا کر رہا ہے؟“ مجھے بلایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلمان! یہ لو اور اس کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرو۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھ پر جتنا (قرضہ) ہے، اس سے کیا اثر ہو گا؟ (یعنی قرضہ بہت زیادہ ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو لو، عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارا (قرضہ) بھی ادا کر دے گا۔“ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے! میں نے وہ لے لیا اور اس میں سے ان آقاؤں کو چالیس اوقیے تول کر دے دیئے، ان كا پورا حق ادا کر دیا اور آزاد ہو گیا۔ پهر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خندق میں حاضر ہوا اور اس كے بعد کوئی غزوه مجھ سے نہ ره سکا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3454]
2275. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنگی معاملات میں صحابہ سے مشورہ کرنا
حدیث نمبر: 3455
-" رأيت كأني في درع حصينة ورأيت بقرا منحرة، فأولت أن الدرع الحصينة المدينة وأن البقر هو ـ والله ـ خير".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) دیکھا کہ میں ایک مضبوط زرہ میں ہوں اور ایک گائے ذبح کی ہوئی پڑی ہے۔ میں نے یہ تعبیر کی کہ مضبوط زرہ مدینہ ہے اور گائے۔ اللہ کی قسم!۔ وہ خیر و بھلائی ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ”اگر ہم مدینہ میں ہی فروکش رہیں اور وہ ہم پر چڑھائی کر دیں تو ( اپنے شہر میں ہی ٹھہر کر) ان سے لڑیں گے۔“ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! جاہلیت میں بھی ہم پر اس شہر میں حملہ نہیں کیا گیا اور اب اسلام کے باوجود ایسا کیوں ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ٹھیک ہے) تمہاری بات سہی۔“(یہ جواب عفان کی حدیث میں ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جنگی) لباس پہنا۔ انصاریوں نے آپس میں کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے تسلیم نہیں کی (یہ خطرہ مول لینے والی بات ہے) سو وہ آئے اور کہا: اے اللہ کے نبی! آپ کی رائے پر عمل ہونا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نبی جنگی لباس پہن لیتا ہے تو اسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ لڑائی سے پہلے لباس اتار دے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3455]