عبداللہ بن بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوے سے واپس آئے تو سیاہ رنگ کی ایک لونڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فاتح لوٹایا تو میں آپ کے پاس دف بجاؤں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر نذر مانی ہے تو ٹھیک ہے (دف بجا لے) وگرنہ نہیں۔“ اس نے دف بجانا شروع کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، وہ بجاتی رہی، دوسرے صحابہ آئے، وہ اسی حالت پر رہی۔ لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ آئے تو اس نے دف چھپانے کے لیے اسے اپنے نیچے رکھ دیا اور دوپٹا اوڑھ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! شیطان تجھ سے ڈرتا ہے۔ میں اور یہ لوگ یہاں بیٹھے تھے (یہ دف بجاتی رہی) لیکن جب تم داخل ہوئے تو اس نے ایسے ایسے کر دیا۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3259]
حدیث نمبر: 3260
- (بينما أنا على بئر أَنْزِعُ منها؛ جاءني أبو بكر وعمر، فأخذ أبو بكر الدلو، فنزع ذنوباً أو ذنوبين، وفي نزعه ضعف، والله يغفر له! ثم أخذها ابن الخطاب من يد أبي بكر، فاستحالت في يده غرباً، فلم أر عبقرياً من الناس يفري فريه، فنزع، حئى ضرب الناس بعطن ٍ). جاء من حديث ابن عمر، وأبي هريرة، وأبي الطفيل. أما حديث ابن عمر؛ فرواه عنه اثنان: أولهما ة سالم - ولده-:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں (خواب میں) ایک کنویں سے پانی کھینچ رہا تھا، میرے پاس ابوبکر آئے، انہوں نے ڈول پکڑا اور ایک دو ڈول کھینچے، اس کے کھینچنے میں کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا۔ پھر ابوبکر کے ہاتھ سے عمر ابن خطاب نے (وہ ڈول) پکڑ لیا، پھرتو وہ بہت بڑا ڈول ثابت ہوا، میں نے ایسا قوی (اور باکمال) آدمی نہیں دیکھا جو اس طرح کام کرتا ہو، انہوں نے اتنا پانی کھینچا کہ لوگ اپنے اونٹوں کو سیراب کر کے پانی کے پاس ٹھہر گئے۔“ یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابو طفیل رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3260]
حدیث نمبر: 3261
-" إن من أصحابي من لا يراني بعد أن أفارقه".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اور کہا: امی جان! میں قریش کا امیر ترین آدمی ہوں، مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں یہ کثرت مال مجھے ہلاک نہ کر دے۔ انہوں نے کہا: میرے بیٹے! خرچ کیا کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میرے بعض صحابہ ایسے بھی ہیں جو میری مفارقت کے بعد مجھے نہیں ملیں گے۔“ وہ وہاں سے نکل پڑے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ملے، (اور انہیں یہ حدیث سنائی)۔ سیدنا عمر، سیدہ ام سلمہ کے پاس آئے اور کہا: اﷲ کی قسم! کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ لیکن آپ کے بعد کسی کو خبر نہیں دوں گی۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3261]
حدیث نمبر: 3262
-" أخر عني يا عمر! إني خيرت فاخترت وقد قيل (لي): * (استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم) *. لو أعلم أني لو زدت على السبعين غفر له لزدت".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) مرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی نماز جنازہ کے لیے بلایا گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف لےگئے اور جب نماز کے ارادے سے کھڑے ہوئے تو میں گھوم کر آپ صلی الله علیہ و سلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہا: اے الله کے رسول! کیا الله تعالیٰ کے دشمن عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ (پڑھنے لگے ہیں)، جس نے فلاں فلاں دن ایسے ایسے کہا تھا؟ ان دنوں کو شمار بھی کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواباً مسکرا دیے۔ جب میں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! پیچھے ہٹ جاؤ، مجھے اختیار دیا گیا اور میں نے ( اس اختیار کو) قبول کر لیا، مجھے ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے) کہا گیا ہے: ”اے محمد! آپ ان کے لیے بخشش طلب کریں یا نہ کریں، اگر آپ ستر دفعہ بھی بخشش طلب کریں تو پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔“(سورۃ التوبہ: ۸۰) اگر مجھے علم ہوتا کہ ستر سے زائد دفعہ بخشش طلب کرنے سے اسے بخش دیا جائے گا تو میں زیادہ دفعہ کر دیتا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، اس کی میت کے ساتھ چلے اور فارغ ہونے تک اس کی قبر پر کھڑے رہے۔ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جرات کرنے پر بڑا تعجب ہو رہا تھا، اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ اللہ کی قسم! تھوڑے وقت کے بعد ہی یہ دو آیات نازل ہوئیں: ”اے محمد! منافقوں میں سے جو بھی مرے، آپ نہ کبھی اس کی نماز جنازہ پڑھائیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور فسق کی حالت میں مرے ہیں۔“(سوره توبہ: ٨٤)(ان آیات کے نزول کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کسی منافق کی نماز جنازہ پڑھی اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ فوت ہو گئے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3262]
حدیث نمبر: 3263
-" اقتدوا باللذين من بعدي من أصحابي أبي بكر وعمر، واهتدوا بهدي عمار، وتمسكوا بعهد ابن مسعود".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا، عمار کی سیرت اختیار کرنا اور ابن مسعود کے عہد کو تھام لینا۔“ یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود، سیدنا حذیفہ بن یمان، سیدنا انس بن مالک اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت کی گئی ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3263]
حدیث نمبر: 3264
- (إيه يا ابن الخطّاب! والذي نفسي بيده! ما لَقِيكَ الشيطانُ سالكاً فجّاً؛ إلا سلك فجّاً غير فجك).
محمد بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، اس وقت آپ کے پاس قریشی عورتیں بیٹھی تھیں، وہ آپ سے سوال کر رہی تھیں، کثرت کا مطالبہ کر رہی تھیں اور بلند آواز میں ( اپنے مطالبات کا) اظہار کر رہی تھیں۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت لی تو انھوں نے جلدی جلدی پردہ کر لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اجازت دی، جب وہ داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اور اللہ تعالیٰ آپ کو ہنساتا رہے (بھلا مسکرانے کی وجہ کیا ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ان عورتوں پر بڑا تعجب ہو رہا ہے، یہ میرے پاس بیٹھی تھیں، جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی جلدی پردہ کر لیا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ سے ڈرا جائے۔ پھر وہ ان عورتوں پر متوجہ ہوئے اور کہا: اپنے نفسوں کے دشمنو! کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی؟ انہوں نے کہا: تم رسول اللہ کی بہ نسبت زیادہ سخت رو ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن خطاب! بس کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب شیطان تجھے کسی گلی میں چلتے دیکھتا ہے تو وہ (تجھ سے خوفزدہ ہو کر) دوسری گلی میں چلا جاتا ہے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3264]
حدیث نمبر: 3265
-" أبو بكر وعمر من هذا الدين كمنزلة السمع والبصر من الرأس".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دین اسلام میں ابوبکر اور عمر کی اہمیت سر میں کان اور آنکھ کی سی ہے۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3265]
حدیث نمبر: 3266
-" اثبت حراء، فإنه ليس عليك إلا نبي أو صديق أو شهيد".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حرا! تھم جا، نہیں ہے تجھ پر مگر نبی یا صدیق یا شہید۔“ یہ حدیث سیدنا سعید بن زید، سیدنا عثمان بن عفان، سیدنا انس بن مالک، سیدنا بریدہ بن حصیب اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی گئی ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3266]
2182. سیدنا عمر، سیدنا علی اور سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہما کے داماد
حدیث نمبر: 3267
-" كل سبب ونسب منقطع يوم القيامة، إلا سببي ونسبي".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے روز ہر رشتہ ( اور تعلق و قرابت) منقطع ہو جائے، سوائے میرے ازدواجی اور نسبی رشتے کے۔“ یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا عمر بن خطاب، سیدنا مسور بن مخرمہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3267]
2183. سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب
حدیث نمبر: 3268
-" كان كاشفا عن فخذه، فاستأذن أبو بكر، فأذن له وهو على ذلك الحال، ثم استأذن عمر فأذن له وهو على تلك الحال، ثم استأذن عثمان فأرخى عليه من ثيابه، فلما قاموا قلت: يا رسول الله! استأذن عليك أبو بكر وأنت على ذلك الحال.. (وفيه) فقال: يا عائشة ألا أستحي من رجل والله إن الملائكة لتستحي منه".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ران سے کپڑا ہٹا کر بیٹھے تھے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپ نے اسی حالت میں اجازت دے دی، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، آپ نے اسی حالت میں اجازت دے دی۔ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ نے اپنا کپڑا نیچے لٹکا کر (ران کو ڈھانپ لیا)۔ جب یہ سارے لوگ چلے گئے تو میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ سے اجازت طلب کی، آپ اسی حالت پر تشریف فرما رہے . . . (لیکن جب عثمان رضی اللہ عنہ نے اندر آنا چاہا تو اس طرح پردہ کر لیا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! کیا میں اس آدمی سے حیاء نہ کروں کہ اللہ کی قسم! فرشتے بھی جس سے حیاء کرتے ہیں۔“[سلسله احاديث صحيحه/المناقب والمثالب/حدیث: 3268]