الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث (657)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
मुवत्ता इमाम मलिक रवायात इब्न अल-क़ासिम
چند متفرق مسائل
1. کامیابی کا دارومدار اعمال و فرائض کی ادائیگی پر ہے
حدیث نمبر: 649
267- مالك عن عمه أبى سهيل بن مالك عن أبيه أنه سمع طلحة بن عبيد الله يقول: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من أهل نجد، ثائر الرأس، يسمع دوي صوته ولا يفقه ما يقول، حتى دنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو يسأل عن الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”خمس صلوات فى اليوم والليلة“، فقال: هل على غيرهن؟ قال: ”لا، إلا أن تطوع“ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”وصيام رمضان“، قال: هل على غيره؟ قال: ”لا، إلا أن تطوع“، قال: وذكر له رسول الله صلى الله عليه وسلم الزكاة، فقال: هل على غيرها؟ قال: ”لا، إلا أن تطوع“، قال: فأدبر الرجل وهو يقول: والله لا أزيد على هذا ولا أنقص منه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أفلح إن صدق.“
سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجد والوں میں سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے، اس کی آواز کی گنگناہٹ سنائی دیتی لیکن اس کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی، حتیٰ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ گیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ اسلام کے بارے میں کچھ پوچھ رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دن اور رات میں پانچ نمازیں (فرض ہیں)۔ اس نے کہا: کیا ان (پانچوں) کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی نماز فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اِلا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نوافل پڑھو۔، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور رمضان کے روزے (فرض ہیں)۔ اس نے کہا: کیا ان کے علاوہ بھی کوئی روزے مجھ پر فرض ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں اِلا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نفلی روزے رکھو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کا ذکر کیا، اس نے پوچھا: کیا اس (زکوٰۃ) کے علاوہ اور بھی مجھ پر کچھ فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں الا یہ کہ تم اپنی مرضی سے نفلی صدقے دو۔، پھر وہ آدمی یہ کہتے ہوئے پیٹھ پھیر کر روانہ ہوا: اللہ کی قسم! میں ان پر نہ زیادتی کروں گا اور نہ کمی کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے سچ کہا ہے تو کامیاب ہو گیا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 649]
تخریج الحدیث: «267- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 175/1 ح 425، ك 9 ب 25 ح 94) التمهيد 157/16، 158، الاستذكار: 395، و أخرجه البخاري (56) مسلم (11) من حديث مالك به.»

2. اختیاری امور آسان کا م کو ترجیح دینی چاہئے
حدیث نمبر: 650
43- وبه: أنها قالت: ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم فى أمرين إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما. فإن كان إثما كان أبعد الناس منه. وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه إلا أن تنتهك حرمة هي لله فينتقم لله بها.
اور اسی سند (کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن دو کاموں میں اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان کام ہی اختیار کیا بشرطیکہ وہ گناہ والا (ناجائز) کام نہ ہوتا اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کے لئے کسی سے کبھی انتقام نہیں لیا الا یہ کہ اللہ کی مقرر کردہ حرمت کی خلاف ورزی ہوتی ہو تو اس صورت میں آپ اللہ کے لئے اس کا انتقام لیتے تھے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 650]
تخریج الحدیث: «43- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 902/2، 903 ح 1736، ك 47 ب 1 ح 2) التمهيد 146/8، الاستذكار: 1668، و أخرجه البخاري (3560) ومسلم (2327/77) من حديث مالك به.»

3. اختیاری امور میں سے کسی ایک کو چھوڑنا جائز ہے
حدیث نمبر: 651
60- وبه عن سالم بن عبد الله أن عبد الله بن محمد بن أبى بكر الصديق أخبر عبد الله بن عمر عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ألم تري أن قومك حين بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم.“ قالت فقلت: يا رسول الله ألا تردها على قواعد إبراهيم قال لولا حدثان قومك بالكفر لفعلت. قال: فقال عبد الله بن عمر: لئن كانت عائشة سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أرى رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك استلام الركنين اللذين يليان الحجر إلا أن البيت لم يتم على قواعد إبراهيم.
سالم بن عبد اﷲ (بن عمر رحمہ اﷲ) سے روایت ہے کہ عبد اﷲ بن محمد بن ابی بکر الصدیق  رحمہ اﷲ  نے سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کو  بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے نہیں دیکھا، کیا تجھے معلوم نہیں کہ جب تیری قوم قریش مکہ نے کعبہ کی تعمیر کی تو اسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں سے چھوٹا کر دیا؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے کہا: یا رسول اﷲ! آپ اسے ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر کیوں نہیں لوٹا دیتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری قوم کفر سے تازہ تازہ مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں ایسا کر دیتا۔ عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ سن کر فرمایا: اگر عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر (حطیم) والے دونوں ارکان(کونوں، دیواروں) جو (طواف میں) صرف اسی لئے نہیں چھوا تھا کہ بیت اﷲ کی تعمیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر نہیں کی گئی تھی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 651]
تخریج الحدیث: «60- متفق عليه، الموطأ (363/1، 364 حه 824، ك 20 ب 33 ح 104، وعنده: لم يتمم) التمهيد 26/10، الاستذكار: 772، و أخرجه البخاري (4484) ومسلم (1333/399) من حديث مالك به، من رواية يحييٰ بن يحييٰ و فى الأصل: قالج، خطأ مطبعي .»

4. بعض تقاریر جادو جیسا اثر رکھتی ہیں
حدیث نمبر: 652
164- مالك عن زيد بن أسلم عن عبد الله بن عمر قال: قدم رجلان من المشرق فخطبا فعجب الناس لبيانهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن من البيان لسحرا، أو إن من بعض البيان لسحرا.“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مشرق کی طرف سے دو آدمی آئے تو انہوں نے خطبہ دیا۔ لوگوں کو ان کے بیان پر تعجب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعض بیان (خطبے و تقاریر) جادو ہوتا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 652]
تخریج الحدیث: «164- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 986/2 ح 1916، ك 56 ب 3 ح 7 وعنده: لسحر) التمهيد 169/5، الاستذكار:1852، و أخرجه البخاري (5767) من حديث مالك به.»

5. مونچھیں کاٹنا اور داڑھیاں بڑھانا چاہئیں
حدیث نمبر: 653
524- وعن أبى بكر بن نافع عن أبيه عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بإحفاء الشوارب وإعفاء اللحى.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھیں کاٹنے اور داڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 653]
تخریج الحدیث: «524- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 947/2 ح 1828، ك 51 ب 1 ح 1) التمهيد 142/24، الاستذكار: 1764، و أخرجه مسلم (259/53) من حديث مالك به»

6. اگر کسی کا مال دیوالیہ شخص کے پاس محفوظ ہو تو
حدیث نمبر: 654
510- مالك عن يحيى بن سعيد عن أبى بكر بن محمد ابن عمرو بن حزم عن عمر بن عبد العزيز عن أبى بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أيما رجل أفلس فأدرك الرجل ماله بعينه فهو أحق به من غيره.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی مفلس (دیوالیہ) ہو جائے پھر کوئی آدمی اپنا مال بعینہ (بالکل اسی طرح) اس کے پاس پا لے تو وہ دوسروں کی بہ نسبت اس مال کا زیادہ حقدار ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 654]
تخریج الحدیث: «510- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 678/2 ح 1420، ك 31 ب 42 ح 88) التمهيد 169/23، الاستذكار: 1341، و أخرجه أبوداود (3519) من حديث مالك به، ورواه البخاري (2402) ومسلم (1559) من حديث يحيي بن سعيد الانصاري به .»

7. راوی اپنی روایت کو سب سے زیادہ جانتا ہے
حدیث نمبر: 655
158- وبه: عن أبى سفيان عن أبى سعيد الخدري: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة والمحاقلة. والمزابنة: اشتراء الثمر بالتمر فى رؤوس النخل، والمحاقلة: كراء الأرض بالحنطة.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دو سَودوں) مزابنہ اور محقلہ سے منع فرمایا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کہ درختوں پر تازہ کھجوروں کو چھوہاروں کے بدلے خریدا جائے اور محاقلہ (مقرر) گندم کے بدلے میں زمیں کو کرائے پر دینے کو کہتے ہیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 655]
تخریج الحدیث: «158- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 625/2 ح 1355، ك 31 ب 13 ح 24) التمهيد 313/2، الاستذكار:1275، و أخرجه البخاري (2186) ومسلم (1546/105) من حديث مالك به .»

8. ستر انبیاء
حدیث نمبر: 656
102- وعن محمد بن عمرو بن حلحلة الديلي عن محمد بن عمران الأنصاري عن أبيه أنه قال: عدل إلى عبد الله بن عمر وأنا نازل تحت شجرة بطريق مكة، فقال: ما أنزلك تحت هذه الشجرة؟. فقلت: أنزلني ظلها، فقال: هل غير ذلك؟ فقلت: لا، ما أنزلني غير ذلك. فقال عبد الله بن عمر: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إذا كنت بين الأخشبين من منى -ونفخ بيده نحو المشرق- فإن هنالك واديا يقال له السرر، به سرحة سر تحتها سبعون نبيا.“ قال مالك: سر يعني: قطعت سررهم حين ولدوا.
عمران الانصاری سے روایت ہے کہ میں مکہ کے راستے میں ایک درخت کے نیچے تھا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے میری طرف متوجہ ہو کر پوچھا: تجھے کس نے اس لمبے درخت کے نیچے اتارا ہے؟ میں نے کہا: میں اس کے سائے کے لئے یہاں اترا ہوں۔ انہوں نے پوچھا: اس کے علاوہ اور کوئی وجہ تو نہیں ہے؟ میں نے کہا: نہیں، مجھے کسی اور چیز نے یہاں نہیں اتارا۔ پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم منیٰ کی دو پہاڑوں کے درمیان پہنچو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ تو وہاں ایک وادی ہے جسے سُرر کہتے ہیں، اس میں ایک درخت ہے جس کے نیچے ستر نبیوں کی پیدائش ہوئی (یا انہیں نبوت ملی)، امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: سُرّ سے مراد یہ کہ ان کی پیدائش کے وقت ان کی نال کاٹی گئی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 656]
تخریج الحدیث: «102- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 423/1، 424 ح 978، ك 20 ب 81 ح 249) التمهيد 64/13، الاستذكار: 918، و أخرجه النسائي (248/5، 249 ح 2998) من حديث مالك به و صححه ابن حبان (الاحسان 6244/6211، الموارد: 1029) وله شاهد ضعيف فى مسند ابي يعليٰ (87/10 ح 5723)»

9. پسندیدہ عمل
حدیث نمبر: 657
457- وبه: أنها قالت: كان أحب العمل إلى رسول الله الذى يدوم عليه صاحبه.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہوتا تھا جس پر عمل کرنے والا مداومت (ہمیشگی) کرے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 657]
تخریج الحدیث: «457- الموطأ (رواية يحيٰي بن يحيٰي 174/1 ح 421، ك 9 ب 24 ح 90) التمهيد 120/22، الاستذكار: 391، و أخرجه البخاري (6462) من حديث مالك به .»