427- وعن أبى النضر عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود أنه دخل على أبى طلحة الأنصاري يعوده، قال: فوجدنا عنده سهل بن حنيف، قال: فدعا أبو طلحة إنسانا فنزع نمطا، تحته فقال له سهل بن حنيف: لم تنزعه؟ فقال: لأن فيه تصاوير وقد قال فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قد علمت، فقال سهل: ألم يقل: ”إلا ما كان رقما فى ثوب“ فقال: بلى، ولكنه أطيب لنفسي. كمل حديث أبى النضر وهو ثمانية، وتقدم له مع محمد بن المنكدر فى الطاعون، وحديث آخر مع عبد الله بن يزيد مولى الأسود فى صلاة الجالس.
عبیداللہ (بن عبداللہ) بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ وہ سیدنا ابوطلحہ الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بیمار پرسی کے لئے گئے تو وہاں سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو بلایا پھر اپنے نیچے سے بستر کی چادر نکالی تو سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ نے اسے کیوں نکال دیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیونکہ اس میں تصویریں ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے آپ جانتے ہیں تو سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ سوائے وہ نقش جو کپڑے پر ہو تو انہوں نے کہا: کیوں نہیں! لیکن یہ (کپڑا ہٹانا) میرے دل میں زیادہ پسندیدہ ہے۔ ابوالنضر کی (بیان کردہ) حدیثیں مکمل ہوئیں اور یہ آٹھ حدیثیں ہیں۔ ان کی ایک حدیث محمد بن المنکدر (کی سند) کے ساتھ طاعون کے بارے میں گزر چکی ہے (دیکھئے ح ۸۷) اور دوسری حدیث عبداللہ بن یزید (کی سند) کے ساتھ بیٹھنے والے کی نماز کے بارے میں گزر چکی ہے۔ (دیکھئے ح۳۷۸) [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 608]
تخریج الحدیث: «427- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 8966/2 ح 1868، ك 54 ب 3 ح 7) التمهيد 191/21، الاستذكار: 1804، و أخرجه الترمذي (1750، وقال: ”حسن صحيح“) و النسائي (212/8 ح 5351) من حديث مالك به.»
2. فکر آخرت اور ذکر موت سے ہنسی مذاق ختم ہو جاتا ہے
حدیث نمبر: 609
459- وبه: أنها قالت: خسفت الشمس فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس فقام، فأطال القيام، ثم ركع فأطال الركوع، ثم قام فأطال القيام وهو دون وهو دون القيام الأول، ثم ركع فأطال الركوع وهو دون الركوع الأول، ثم رفع فسجد ثم فعل فى الركعة الأخرى مثل ذلك، ثم انصرف وقد تجلت الشمس، فخطب الناس فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: ”إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته، فإذا رأيتم ذلك فادعوا الله وكبروا وتصدقوا“ وقال: ”يا أمة محمد، والله ما من أحد أغير من الله أن يزني عبده أو تزني أمته يا أمة محمد، والله لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر کھڑے ہوئے لمبا قیام کیا اور یہ پہلے قیام سے چھوٹا تھا۔ پھر رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا۔ پھر رکوع سے سر اٹھایا تو سجدہ کیا پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا۔ جب سلام پھیرا تو سورج روشن ہو چکا تھا، لوگوں کو خطبہ دیا۔ اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، کسی کی موت یا زندگی کہ وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا۔ اگر تم یہ نشانیاں دیکھو تو اللہ سے دعا مانگو، تکبیر کہو اور صدقہ کرو۔“ پھر فرمایا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی امت! اگر اللہ کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے تو اس پر اللہ کو سب سے زیادہ غیرت آتی ہے۔ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی امت! اللہ کی قسم! جو میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 609]
تخریج الحدیث: «459- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 186/1 ح 445، ك 12 ب 1 ح 1) التمهيد 115/22، الاستذكار: 414، و أخرجه البخاري (1044) ومسلم (901) من حديث مالك به.»
3. جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرے
حدیث نمبر: 610
446- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا أحب الله العبد قال: يا جبريل، قد أحببت فلانا فأحبه، فيحبه جبريل، ثم ينادي فى أهل السماء: ألا، إن الله قد أحب فلانا فأحبوه، فيحبه أهل السماء، ثم يوضع له القبول فى الأرض. وإذا أبغض العبد“ قال مالك: لا أحسبه إلا قال فى البغض مثل ذلك.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو کہتا ہے: اے جبریل! میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو تو جبریل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں پھر وہ آسمان والوں میں منادی کرتے ہیں کہ سنو! بے شک اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے اس شخص سے محبت کرتے ہیں پھر اسے زمین میں (اہل ایمان کے نزدیک) مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ اور جب (اللہ) کسی شخص سے بغض کرتا ہے تو۔۔۔“ امام مالک نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ اسی طرح کی بات بغض کے بارے میں بھی ہے۔ یعنی اللہ اس سے بغض کرتا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 610]
تخریج الحدیث: «446- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 953/2 ح 1842، ك 51 ب 5 ح 15) التمهيد 237/21، الاستذكار: 1778، و أخرجه مسلم (2637/157) من حديث مالك به ورواه البخاري (7485) من حديث ابي صالح به .»
4. ایک دوسرے سے اللہ کے لئے محبت کرنے کی فضیلت
حدیث نمبر: 611
414- وعن أبى حازم بن دينار عن أبى إدريس الخولاني أنه قال: دخلت مسجد دمشق فإذا فتى براق الثنايا، وإذا الناس معه إذا اختلفوا فى شيء أسندوه إليه وصدروا عن رأيه فسألت عنه فقيل هذا معاذ بن جبل. فلما كان من الغد هجرت إليه فوجدته قد سبقني بالتهجير ووجدته يصلي قال: فانتظرته حتى قضى صلاته ثم جئته من قبل وجهه، فسلمت عليه ثم قلت: والله إني لأحبك لله، فقال: آلله؟ فقلت: والله، فقال: آلله؟ فقلت: والله، قال: فأخذ بحبوة ردائي فجبذني إليه وقال: أبشر، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”قال الله وجبت محبتي للمتحابين فى والمتجالسين فى والمتزاورين فى والمتباذلين في.
ابوادریس الخوالانی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا تو چمکتے دانتوں والا ایک نوجوان دیکھا اور لوگ اس کے پاس (جمع) تھے، جب کسی چیز میں ان کا اختلاف ہوتا تو اس کی طرف رجوع کرتے اور اس کی رائے (فیصلے) کی طرف رجوع کرتے۔ میں نے پوچھا: کہ یہ کون ہے؟ تو کہا گیا: یہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھر اگلی صبح میں جلدی آیا تو دیکھا کہ وہ مجھ سے بھی پہلے آ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے ان کا انتظار کیا، وہ جب نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے ان کے سامنے آ کر انہیں سلام کیا پھر کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے اللہ کے لئے محبت کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا: کیا اللہ کی قسم سے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم سے! انہوں نے کہا: کیا اللہ کی قسم سے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم سے! تو انہوں نے میری چادر کا کنارہ (پلو) پکڑ کی اپنی طرف کھینچا اور فرمایا: تمہارے لئے خوشخبری ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ فرماتا ہے: میری محبت ان دو آدمیوں کے لئے واجب ہو گئی جو ایک دوسرے سے میری وجہ سے محبت کرتے ہیں اور مجلس میں میرے لئے بیٹھتے ہیں اور میرے لئے ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور میرے لئے ایک دوسرے پر مال خرچ کرتے ہیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 611]
تخریج الحدیث: «414- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 953/2، 954ح 1843، ك 51 ب 5 ح 16) التمهيد 124/21،125، الاستذكار: 1779، و أخرجه أحمد (233/5) وعبد بن حميد (125) من حديث مالك به وصححه ابن حبان (المورد: 2510) الحاكم (168/4-170) عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي.»
5. اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی فکر
حدیث نمبر: 612
340- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”قال الله عز وجل: إذا أحب عبدي لقائي أحببت لقاءه، وإذا كره لقائي كرهت لقاءه.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب میرا بندہ (موت کے وقت) میری ملاقات پسند کرتا ہے تو میں اس سے ملاقات پسند کرتا ہوں اور جب وہ میری ملاقات ناپسند کرتا ہے تو میں اس سے ملاقات ناپسند کرتا ہوں۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 612]
تخریج الحدیث: «340- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 240/1 ح 570، ك 16 ب 16 ح 50) التمهيد 25/18، الاستذكار: 524، و أخرجه البخاري (7504) من حديث مالك به .»
6. سات قسم کے خوش نصیب لوگ
حدیث نمبر: 613
155- وبه: عن حفص بن عاصم عن أبى سعيد الخدري أو عن أبى هريرة أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”سبعة يظلهم الله فى ظله يوم لا ظل إلا ظله: إمام عادل، وشاب نشأ فى عبادة الله، ورجل قلبه معلق بالمسجد إذا خرج منه حتى يعود إليه، ورجلان تحابا فى الله اجتمعا على ذلك وتفرقا، ورجل ذكر الله خاليا ففاضت عيناه، ورجل دعته ذات حسب وجمال فقال: إني أخاف الله رب العالمين، ورجل تصدق بصدقة فأخفاها حتى لا تعلم شماله ما تنفق يمينه.“
اسی سند کے ساتھ ابوسعید خدری یا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات لوگوں کو اللہ اپنے (عرش کے) سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا: عادل حکمران، وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پلا (جوان ہوا) ہو، وہ آدمی جس کا دل مسجد سے نکلنے کے بعد واپس آنے تک مسجد میں اٹکا رہتا ہے، دو آدمی جو ایک دوسرے سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں اسی پر جمع ہوتے ہیں اور اسی پر جدا ہوتے ہیں، وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، وہ آدمی جسے حسب نسب والی ایک خوبصورت عورت نے (گناہ کی) دعوت دی تو اس نے کہا: میں اللہ رب العلمین سے ڈرتا ہوں، اور وہ آدمی جو صدقہ کرے تو اسے اتنا خفیہ رکھے کہ (گویا) اس کے بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے کہ اس کو دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 613]
تخریج الحدیث: «155- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ952/2، 953 ح 1841، ك 51 ب 5 ح 14) التمهيد 279/2، الاستذكار:1777، و أخرجه مسلم (1031) من حديث مالك به، والبخاري (6806) من حديث خبيب بن عبدالرحمٰن الانصاري عن حفص بن هاشم به .»
حدیث نمبر: 614
303- وعن عبد الله بن عبد الرحمن عن أبى الحباب سعيد بن يسار عن أبى هريرة أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن الله يقول يوم القيامة: أين المتحابون لجلالي، اليوم أظلهم فى ظلي يوم لا ظل إلا ظلي.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ قیامت کے دن فرمائے گا: میرے جلالتِ شان کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ میں آج انہیں اپنے (عرش کے) سائے میں رکھوں گا، آج میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 614]
تخریج الحدیث: «303- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 952/1 ح 1840، ك 51 ب 5 ح 13) التمهيد 428/17، الاستذكار: 1776، و أخرجه مسلم (2562) من حديث مالك به .»