43- وبه: أنها قالت: ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم فى أمرين إلا أخذ أيسرهما ما لم يكن إثما. فإن كان إثما كان أبعد الناس منه. وما انتقم رسول الله صلى الله عليه وسلم لنفسه إلا أن تنتهك حرمة هي لله فينتقم لله بها.
اور اسی سند (کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن دو کاموں میں اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان کام ہی اختیار کیا بشرطیکہ وہ گناہ والا (ناجائز) کام نہ ہوتا اور اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کے لئے کسی سے کبھی انتقام نہیں لیا الا یہ کہ اللہ کی مقرر کردہ حرمت کی خلاف ورزی ہوتی ہو تو اس صورت میں آپ اللہ کے لئے اس کا انتقام لیتے تھے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 458]
تخریج الحدیث: «43- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 902/2، 903 ح 1736، ك 47 ب 1 ح 2) التمهيد 146/8، الاستذكار: 1668، و أخرجه البخاري (3560) ومسلم (2327/77) من حديث مالك به.»
2. آداب مجلس کا بیان
حدیث نمبر: 459
126- مالك عن إسحاق بن عبد الله بن أبى طلحة أن أبا مرة مولى عقيل ابن أبى طالب أخبره عن أبى واقد الليثي: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو جالس فى المسجد والناس معه إذ أقبل نفر ثلاثة، فأقبل اثنان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وذهب واحد. قال: فلما وقفا على رسول الله صلى الله عليه وسلم سلما. فأما أحدهما فرأى فرجة فى الحلقة فجلس فيها، وأما الأخر فجلس خلفهم، وأما الثالث فأدبر ذاهبا. فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ألا أخبركم عن النفر الثلاثة؟ أما أحدهم فأوى إلى الله فآواه الله وأما الآخر فاستحيى فاستحيى الله منه، وأما الآخر فأعرض فأعرض الله عنه.“
سیدنا ابوواقد اللیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ اتنے میں تین آدمیوں کا ایک گروہ آیا ان میں سے دو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ایک واپس چلا گیا، جب وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو دونوں نے سلام کیا پھر ایک نے حلقے میں تھوڑی سی جگہ دیکھی تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا لوگوں کے آخر میں بیٹھ گیا اور تیسرا پیٹھ پھیر کر چلا گیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبے یا درس سے) فارغ ہوئے تو فرمایا: ”کیا میں تمہیں تین آدمیوں کی بات نہ بتاؤں؟ ایک نے اللہ سے جگہ مانگی تو اللہ نے اسے جگہ دے دی، دوسرے نے حیا کی تو اللہ نے اس سے حیا کی اور تیسرے نے منہ پھیرا تو اللہ نے اس سے اعراض فرمایا۔ “[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 459]
تخریج الحدیث: «126- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 960/2، 961 ح 1857، ك 53 ب 3 ح 4) التمهيد 315/1، وقال: ”حديث متصل صحيح“، الاستذكار: 1793، و أخرجه البخاري (66) ومسلم (2176) من حديث مالك به.»
3. مہمان اور میزبانی کے آداب
حدیث نمبر: 460
416- وعن سعيد بن أبى سعيد المقبري عن أبى شريح الكعبي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته يوما وليلة، والضيافة ثلاثة أيام، فما كان بعد ذلك فهو صدقة، ولا يحل له أن يثوي عنده حتى يحرجه.“
سیدنا ابوشریح الکعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئیے کہ اپنے مہمان کا اکرام (عزت) کرے۔ مہمان کی بہترین دعوت ایک دن اور رات ہے اور ضیافت تین دن ہے۔ اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ میزبان کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرا رہے کہ میزبان تنگ ہو جائے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 460]
تخریج الحدیث: «416- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 929/2 ح 1792، ك 49 ب 10 ح 22 مطولا) التمهيد 35/21، الاستذكار: 1762، و أخرجه البخاري (6135) من حديث مالك به ومسلم (148 بعد ح 1762) من حديث سعيد المقبري به .»
4. زبان کی حفاظت
حدیث نمبر: 461
103- مالك عن محمد بن عمرو بن علقمة عن أبيه عن بلال بن الحارث المزني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إن الرجل ليتكلم بالكلمة من رضوان الله ما كان يظن أن تبلغ ما بلغت يكتب الله له بها رضوانه إلى يوم يلقاه، وإن الرجل ليتكلم بالكلمة من سخط الله ما كان يظن أن تبلغ ما بلغت يكتب الله له بها سخطه إلى يوم يلقاه.“
سیدنا بلال بن الحارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آ دمی اللہ کی رضا مندی کی ایک بات کر تا ہے جس کے بارے میں وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا کہنا اجر ہے؟ اس بات کے بدلے اللہ اس کے لئے (قیامت کے دن) ملاقات کے وقت تک رضا مند ی لکھ دیتا ہے اور آدمی اللہ کی ناراضی کی ایک بات کر دیتا ہے جس کے بارے میں وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا کتنا گناہ ہے؟ اس بات کے بدلے اللہ اس کے لئے (قیامت کے دن) ملاقات کے وقت تک ناراضی لکھ دیتا ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 461]
تخریج الحدیث: «103- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 985/2 ح 1914، ك 56 ب 2 ح 5) التمهيد 49/13، الاستذكار: 1850، و أخرجه النسائي فى الكبريٰ تحفتة الاشراف: 2028) والحاكم (46/1 ح 141) من حديث مالك به۔ والاصل الحديث شواهد عندالبخاري (6478) ومسلم (2988) وللحديث لون آخر عند الترمذي (2319) وابن حبان (1576) وسنده حسن.»
5. بدگمانی، جاسوسی اور غیبت کی مذمت
حدیث نمبر: 462
266- مالك عن نافع عن نبيه بن وهب أخي بني عبد الدار أن عمر بن عبيد الله أرسل إلى أبان بن عثمان وأبان يومئذ أمير الحاج، وهما محرمان: إني أردت أن أنكح طلحة بن عمر ابنة شيبة بن جبير، فأردت أن تحضر ذلك فأنكر ذلك، عليه أبان ابن عثمان، وقال: سمعت عثمان بن عفان يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لا ينكح المحرم ولا يخطب ولا ينكح.“ قال أبو الحسن: يمكن أن يكون نبيه سمع أبان يقول هذا. وقد جاء من حديث غير مالك ما يصحح هذا، ولو لم يأت ذلك لكان ذلك ممكنا أن يسمعه من الرسول صلى الله عليه وسلم فيصير متصلا من حديث مالك بمن لم يسم، والله ولي التوفيق. كمل حديث نافع، وهو اثنان وسبعون حديثا.
نبیہ بن وہب (تابعی) سے روایت ہے کہ عمر بن عبیداللہ نے ابان بن عثمان (بن عفان) کی طرف پیغام بھیجا کہ میں (طلحہ) بن عمر (القرشی التیمی) کا شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے نکا ح کرنا چاہتا ہوں اور میرا ارادہ ہے کہ آپ بھی اس میں حاضر ہوں۔ ان دنوں ابان رحمہ اللہ حاجیوں کے امیر تھے۔ اور دونوں (عمر بن عبید اللہ اور ابان) حالتِ احرام میں تھے، تو ابان بن عثمان نے عمر بن عبید اللہ (کی دعوت) کا انکار کیا اور فرمایا میں نے (اپنے والد) سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احرام باندھنے والا نہ نکا ح کرے اور نہ منگنی کرے اور نہ کسی کا نکا ح کرائے۔“، ابوالحسن (القابسی) نے کہا ہو سکتا ہے کہ نبیہ نے اسے ابان سے سنا ہو۔ امام مالک رحمہ اللہ کے علاوہ دوسروں کی روایت سے اسی بات کی تصیح (و تائید) ہوتی ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو ممکن ہے کہ انہوں نے پیغام لے جانے والے سے سنا ہو، پس یہ روایت نامعلوم راوی کی سند کے ساتھ متصل ہو جاتی ہے اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔، نافع کی بیان کردہ احادیث مکمل ہوگئیں اور یہ بہتر (72) حدیثیں ہیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 462]
تخریج الحدیث: «266- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 348/2، 349 ح 788، ك 20 ب 22 ح 70) التمهيد 45/16، الاستذكار: 738، وأخرجه مسلم (1409) من حديث مالك به .»
6. پڑوسی کے حقوق
حدیث نمبر: 463
82- وبه: عن الأعرج عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يمنع أحدكم جاره أن يغرز خشبة فى جداره.“ قال: ثم يقول أبو هريرة: مالي أراكم عنها معرضين، والله لأرمين بها بين أكتافكم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی آدمی بھی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار پر لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے۔ “(عبدالرحمٰن بن ہرمز الاعرج نے) کہا: پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں اس سے منہ پھیرے ہوئے دیکھتا ہوں؟ اللہ کی قسم! میں اسے تمہارے کندھوں کے درمیان ضرور پھینکوں گا یعنی میں اسے تمہارے درمیان مشہور کروں گا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 463]
تخریج الحدیث: «82- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 745/2 ح 1501، ك 36 ب 26 ح 32) التمهيد 215/10، الاستذكار: 1425، و أخرجه البخاري (2463) ومسلم (1609/136) من حديث مالك به.»
حدیث نمبر: 464
180- مالك عن زيد بن أسلم عن عمرو بن معاذ الأشهلي عن جدته أنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”يا نساء المؤمنات، لا تحقرن إحداكن لجارتها ولو كراع شاة محرقا.“
عمرو بن (سعد بن) معاذ الاشہلی کی دادی (حواء رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ایمان والی عورتو! اپنی پڑوسن کے ساتھ نیکی میں کسی چیز کو بھی حقیر نہ سمجھو اگرچہ بکری کا جلا ہوا کھر ہی کیوں نہ ہو۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 464]
تخریج الحدیث: «180- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 931/2 ح 795، ك 49 ب 10 ح 45) التمهيد 295/4، الاستذكار:1728، و أخرجه أحمد (64/4، 377/5، 434/6) والدارمي (1679) والبخاري فى الأدب المفرد (122) من حديث مالك به وللحديث شواهد عند البخاري (2566) ومسلم (1030) وغيرهما هوهو بها صحيح والحمدللٰه .»
7. تین آدمیوں کی موجودگی میں سرگوشی ممنوع ہے
حدیث نمبر: 465
258- وبه من رواية عيسى: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا كان ثلاثة فلا يتناجى اثنان دون واحد.“ كمل حديث نافع عن ابن عمر، وذلك أربعة وستون حديثا، وتقدم له حديث ”لا ينظر الله يوم القيامة“ فى باب زيد بن أسلم.
اور (ابوموسیٰ) عیسٰی (بن مسکین: راوی کتاب) کی روایت سے اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تین آدمی ہوں تو تیسرے کو چھوڑ کر، دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں“۔ نافع کی ابن عمر سے روایتیں مکمل ہو گئیں اور یہ چونسٹھ (۶۴) حدیثیں ہیں اور ایک حدیث «لا ينظر الله يوم القيامة» زید بن اسلم کے باب میں گزر چکی ہے۔ [ديكهئے حديث سابق: ۱۶۵][موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 465]
تخریج الحدیث: «258- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 989/2 ح 1923، ك 56 ب 6 ح 14) التمهيد 287/15، الاستذكار:1859، أخرجه البخاري (6288) و مسلم (2183) من حديث مالك به.»
حدیث نمبر: 466
296- وبه: أنه قال: كنت أنا وعبد الله بن عمر عند دار خالد بن عقبة التى بالسوق، فجاء رجل يريد أن يناجيه وليس مع عبد الله بن عمر أحد غيري وغير الرجل الذى يريد أن يناجيه، فدعا عبد الله رجلا آخر حتى كنا أربعة، فقال لي وللرجل الذى دعا: استأخرا شيئا، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا يتتناجى اثنان دون واحد.“
اور اسی سند کے ساتھ (عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ سے) روایت ہے کہ خالد بن عقبہ کا گھر جو بازار کے قریب ہے، میں اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وہاں موجود تھے کہ ایک آدمی نے آ کر ان (ابن عمر رضی اللہ عنہما) سے سرگوشی (راز کی بات) کرنی چاہی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس میرے سوا کوئی دوسرا نہیں تھا سوائے اس مرد کے جو آپ سے راز کی بات کرنا چاہتا تھا، تو عبداللہ نے ایک آدمی کو بلایا حتیٰ کہ ہم چار ہو گئے، پھر انہوں نے مجھے اور بلائے جانے والے آدمی کو کہا کہ تم دونوں ذرا پیچھے ہٹ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کہ (جب تین آدمی ہوں تو) ایک کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 466]
تخریج الحدیث: «296- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 988/2 ح 1922، ك 56 ب 6 ح 13) التمهيد 120/17، الاستذكار: 1858، و أخرجه ابن حبان (الاحسان: 581) من حديث مالك به .»
8. دوسرے کا خیال رکھنے کی فضیلت
حدیث نمبر: 467
101- مالك عن محمد بن عمرو بن حلحلة عن معبد بن كعب بن مالك عن أبى قتادة بن ربعي أنه كان يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر عليه بجنازة فقال: ”مستريح ومستراح منه.“ فقالوا: يا رسول الله، ما المستريح والمستراح منه؟ قال: ”العبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا وأذاها إلى رحمة الله، والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب.“
سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «مستريح»(پرسکون و پُرآرام) یا «مسترح منه»(لوگ جس سے سکون و آرام میں ہوں) ہے۔“ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! «مستريح» اور «مستراح منه» کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن بندہ دنیا کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت کی طرف سکون و آرام حا صل کرتا ہے اور فاطر (گناہ گار) بندے سے بندوں، شہروں درختوں اور جانوروں کو آ رام و سکون حاصل ہو تا ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 467]
تخریج الحدیث: «101- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 241، 242/1 ح 574، ك 16 ب 16 ح 54) التمهيد 61/13، الاستذكار: 528، و أخرجه البخاري (6512) ومسلم (950) من حديث مالك به.»