7- مالك عن ابن شهاب عن السائب بن يزيد عن المطلب بن أبى وداعة السهمي عن حفصة أم المؤمنين أنها قالت: ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فى سبحته قاعدا قط، حتى كان قبل وفاته بعام، فكان يصلي فى سبحته قاعدا، ويقرأ بالسورة فيرتلها حتى تكون أطول من أطول منها.
ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر نفل پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا حتٰی کہ آپ اپنی وفات سے ایک سال پہلے بیٹھ کر نوافل پڑھنے لگے، آپ ترتیل سے (ٹھہر ٹھہر کر) سورت پڑھتے تھے حتیٰ کہ آپ کی ترتیل کے سبب وہ سورت اپنے سے طویل سورت سے بھی طویل تر ہو جاتی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 70]
تخریج الحدیث: «7- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 137/1، ح 307، ك 8، ب 7، ح 21) التمهيد 220/6، الاستذكار: 277، أخرجه مسلم (733) من حديث مالك به .»
2. موذن کی فضیلت
حدیث نمبر: 71
392- وبه: عن أبيه أنه أخبره أن أبا سعيد الخدري قال له: إني أراك تحب الغنم والبادية، فإذا كنت فى غنمك أو باديتكم فأذنت بالصلاة فارفع صوتك، فإنه لا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة. قال أبو سعيد الخدري: سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم.
عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ الانصاری المازنی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور جنگل کو پسند کرتے ہو، پس اگر تم اپنی بکریوں یا جنگل میں ہو پھر تم نماز کے لئے اذان کہو تو آواز بلند کرنا کیونکہ مؤذن کی آواز جہان تک پہنچتی ہے اسے جن، انسان یا جو چیز بھی سنے تو وہ قیامت کے دن اس کے لئے گواہی دے گی۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 71]
تخریج الحدیث: «392- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 69/1، ح 148، ك 3 ب 1 ح 5) التمهيد 223/19، الاستذكار: 127، و أخرجه البخاري (609) من حديث مالك به.»
حدیث نمبر: 72
433- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”بينما رجل يمشي بطريق إذ وجد غصن شوك على الطريق فأخره، فشكر الله له فغفر له. وقال: الشهداء خمسة: المطعون والمبطون والغرق وصاحب الهدم والشهيد فى سبيل الله. وقال: لو يعلم الناس ما فى النداء والصف الأول ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا، عليه لاستهموا ولو يعلمون ما فى التهجير لاستبقوا إليه ولو يعلمون ما فى العتمة والصبح لآتوهما ولو حبوا.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی ایک راستے پر چل رہا تھا کہ اس نے راستے پر کانٹوں والی ٹہنی دیکھی تو اسے راستے سے ہٹا دیا۔ اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اسے بخش دیا۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ قسم کے لوگ شہید ہیں: طاعون سے مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، ڈوب کر مرنے والا، مکان گرنے سے مرنے والا اور اللہ کے راستے میں شہید ہونے والا۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ اذان اور پہلی صف میں کیا (ثواب) ہے، پھر وہ قرعہ اندازی کے سوا کوئی چارہ نہ پاتے تو قرعہ اندازی کرتے۔ اور اگر وہ جانتے کہ ظہر کی نماز کے لئے جلدی آنے میں کتنا (ثواب) ہے تو ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور اگر وہ جانتے کہ عشاء اور صبح کی نماز میں کیا (ثواب) ہے تو ضرور آتے اگرچہ انہیں گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آنا پڑتا۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 72]
تخریج الحدیث: «433- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 131/1 ح 291، ك 8 ب 2 ح 6) التمهيد 11/22، الاستذكار: 260، 261، و أخرجه البخاري (652-654) ومسلم (1914، 437) من حديث مالك به ببعض الاختلاف.»
3. فرض نماز کے لئے اذان کہنا
حدیث نمبر: 73
184- مالك عن زيد بن أسلم عن رجل من بني الديل يقال له بسر بن محجن، عن أبيه: أنه كان فى مجلس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فأذن بالصلاة، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى ثم رجع ومحجن فى مجلسه. فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ما منعك أن تصلي مع الناس؟ ألست برجل مسلم؟“ قال: بلى يا رسول الله ولكني، كنت قد صليت فى أهلي. فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إذا جئت فصل مع الناس، وإن كنت قد صليت.“
سیدنا محجن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مجلس میں (بیٹھے ہوئے) تھے، پھر نماز کے لئے اذان دی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی، پھر واپس آئے تو سیدنا محجن رضی اللہ عنہ اپنی مجلس میں (ہی) موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ کیا تم مسلمان آدمی نہیں ہو؟“ محجن نے کہا: جی ہاں، یا رسول اللہ! میں مسلمان ہوں، لیکن میں نے (یہ) نماز گھر میں پڑھ لی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”اگر تم نماز پڑھ چکے ہو اور (مسجد) آؤ تو لوگوں کے ساتھ (دوبارہ بھی) نماز پڑھو۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 73]
تخریج الحدیث: «184- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 1328/1 ح 294، ك 8 ب 3 ح 8) التمهيد 222/4، الاستذكار:264، و أخرجه النسائي (112/2 ح 858) من حديث مالك به وصححه ابن حبان (الاحسان: 2405/2398) والحاكم (244/1) وحسنه البغوي فى شرح السنة (130/3 ح 856) .»
4. تہجد کی اذان
حدیث نمبر: 74
281- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إن بلالا ينادي بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک بلال رات کو اذان دیتے ہیں پس کھاؤ اور پیو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 74]
تخریج الحدیث: «281- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 74/1 ح 158، ك 3 ب 3 ح 14) التمهيد 5/17، الاستذكار: 137، و أخرجه البخاري (620) من حديث مالك به.»
5. دوران بارش اذان کیسے کہی جائے (اور اذان کے بغیر نماز)
حدیث نمبر: 75
198- وبه: أن ابن عمر أذن بالصلاة فى ليلة ذات برد وريح، فقال: ألا صلوا فى الرحال، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمر المؤذن إذا كانت ليلة باردة ذات مطر، يقول: ”ألا صلوا فى الرحال.“
اور اسی سند کے ساتھ (نافع تابعی سے) روایت ہے کہ ایک ٹھنڈی اور (تیز) ہوا والی رات سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اذان دی تو فرمایا: «ألا صلوا فى الرحال» سن لو! اپنے ڈیروں (گھروں) میں نماز پڑھو، پھر فرمایا: جب بارش والی ٹھنڈی رات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن کو حکم دیتے کہ وہ کہے: «ألا صلوا فى الرحال» سن لو! اپنے ڈیروں میں نماز پڑھو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 75]
تخریج الحدیث: «198- متفق عليه،الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 73/1 ح 154، ك 3 ب 2 ح 10) التمهيد 270/13، الاستذكار:132، و أخرجه البخاري (666) ومسلم (697) من حديث مالك به.»
6. اذان سننے سے شیطان بھاگ جاتا ہے
حدیث نمبر: 76
324- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا نودي بالصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لا يسمع التأذين، فإذا قضي النداء أقبل، حتى إذا ثوب بالصلاة أدبر، حتى إذا قضي التثويب أقبل حتى يخطر بين المرء ونفسه، يقول له: اذكر كذا، اذكر كذا، لما لم يكن يذكر، حتى يظل الرجل أن يدري كم صلى.“
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پاد مارتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے، پھر جب اذان مکمل ہو جاتی ہے تو (دوبارہ) آ جاتا ہے۔ اسی طرح جب نماز کے لئے اقامت کہی جاتی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، پھر جب اقامت مکمل ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے حتیٰ کہ انسان اور اس کے دل کے درمیان وسوسے ڈالتا ہے۔ کہتا ہے کہ فلاں فلاں بات یاد کرو، جو اسے پہلے یاد نہیں ہوتی تھی حتیٰ کہ (وسوسوں کی وجہ سے) آدمی کو پتا نہیں چلتا کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 76]
تخریج الحدیث: «324- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 69/1، 70 ح 149، ك 3 ب 1 ح 6) التمهيد 305/18، الاستذكار: 128، و أخرجه البخاري (608) من حديث مالك به، وفي رواية يحيي بن يحيي: ”للصلاة“ .»
7. اذان کا جواب دینا چاہیے
حدیث نمبر: 77
77- مالك عن ابن شهاب عن عطاء بن يزيد الليثي عن أبى سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن.“
سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم (اذان کی) آواز سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 77]
تخریج الحدیث: «77- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 67/1 ح 145، ك 3 ب 1 ح 2) التمهيد 134/10، الاستذكار: 124، و أخرجه البخاري (611) ومسلم (383) من حديث مالك به.»