ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی نبی ایسا نہیں جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے نہ ہوں اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہوں، رہے میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے تو وہ جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حدیث حسن غریب ہے، ۲- اور ابوالجحاف کا نام داود بن ابوعوف ہے، سفیان ثوری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سے ابوالجحاف نے بیان کیا (اور وہ ایک پسندیدہ شخص تھے) ۳- اور تلید بن سلیمان کی کنیت ابوادریس ہے اور یہ اہل تشیع میں سے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3680]
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان دونوں میں سے عمر اللہ کے محبوب نکلے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر رضی الله عنہما کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3681]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7655)، و مسند احمد (2/65) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6036 / التحقيق الثانى)
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان و دل پر حق کو جاری فرما دیا ہے“۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس میں لوگوں نے اپنی رائیں پیش کیں ہوں اور عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے (راوی خارجہ کو شک ہو گیا ہے) بھی رائے دی ہو، مگر قرآن اس واقعہ سے متعلق عمر رضی الله عنہ کی اپنی رائے کے موافق نہ اترا ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- خارجہ بن عبداللہ انصاری کا پورا نام خارجہ بن عبداللہ بن سلیمان بن زید بن ثابت ہے اور یہ ثقہ ہیں، ۳- اس باب میں فضل بن عباس، ابوذر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3682]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7656)، و مسند احمد (2/53، 95) (صحیح)»
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اسلام کو ابوجہل بن ہشام یا عمر کے ذریعہ قوت عطا فرما“، پھر صبح ہوئی تو عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور اسلام لے آئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- بعض محدثین نے نضر ابوعمر کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے اور یہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ (لیکن حدیث رقم: (۳۶۹۰) سے اس کے مضمون کی تائید ہوتی ہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3683]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6223) (ضعیف جداً) (سند میں نضر بن عبدالرحمن ابو عمر الخزاز متروک راوی ہے، امام ترمذی نے بھی اسی سبب ضعف کا ذکر کر دیا ہے)»
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر نے ابوبکر رضی الله عنہما سے کہا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر انسان! اس پر ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: سنو! اگر تم ایسا کہہ رہے ہو تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: عمر سے بہتر کسی آدمی پر سورج طلوع نہیں ہوا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اور اس کی سند قوی نہیں ہے، ۲- اس باب میں ابو الدرداء رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3684]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6589) (موضوع) (سند میں عبد الرحمن ابن اخی محمد بن منکدر اور عبد اللہ بن داود ابو محمد التمار دونوں ضعیف راوی ہیں، اور دونوں کی متابعت نہیں کی جائے گی، حدیث کو ابن الجوزی اور ذہبی اور البانی نے موضوع کہا ہے، اور اس کے باطل ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ قطعی طور پر صحیح اور ثابت حدیث کے مخالف ہے کہ سب سے بہتر جن پر سورج طلوع ہوا وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء ورسل ہیں، اس کے بعد ابوبکر ہیں، جیسا کہ حدیث میں آیا: انبیاء ورسل کے بعد کسی پر سورج کا وغروب نہیں ہوا جو ابوبکر سے افضل ہو، الضعیفة: 1357)»
قال الشيخ الألباني: موضوع، الضعيفة (1357) // ضعيف الجامع الصغير (5097) //
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف مشرح بن ہاعان کی روایت سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3686]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9966)، و مسند احمد (4/154) (حسن)»
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے خواب میں دیکھا گویا مجھے دودھ کا کوئی پیالہ دیا گیا جس میں سے میں نے کچھ پیا پھر میں نے اپنا بچا ہوا حصہ عمر بن خطاب کو دے دیا“، تو لوگ کہنے لگے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ آپ نے فرمایا: ”اس کی تعبیر علم ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3687]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 2284 (صحیح)»
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت کے اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک سونے کے محل میں ہوں، میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے کہا: قریش کے ایک نوجوان کا ہے، تو میں نے سوچا کہ وہ میں ہی ہوں گا، چنانچہ میں نے پوچھا کہ وہ نوجوان کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: وہ عمر بن خطاب ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3688]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 590)، و مسند احمد (3/107، 179) (صحیح)»
بریدہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) صبح کی تو بلال رضی الله عنہ کو بلایا اور پوچھا: ”بلال! کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں میرے آگے آگے رہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں جنت میں داخل ہوا ہوں اور اپنے آگے تمہاری کھڑاؤں کی آواز نہ سنی ہو، آج رات میں جنت میں داخل ہوا تو (آج بھی) میں نے اپنے آگے تمہارے کھڑاؤں کی آواز سنی، پھر سونے کے ایک چوکور بلند محل پر سے گزرا تو میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے بیان کیا کہ یہ ایک عرب آدمی کا ہے، تو میں نے کہا: میں (بھی) عرب ہوں، بتاؤ یہ کس کا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ قریش کے ایک شخص کا ہے، میں نے کہا: میں (بھی) قریشی ہوں، بتاؤ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ایک فرد کا ہے، میں نے کہا: میں محمد ہوں، یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: عمر بن خطاب کا ہے“، بلال رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے اذان دی ہو اور دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں اور نہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے حدث لاحق ہوا ہو اور میں نے اسی وقت وضو نہ کر لیا ہو اور یہ نہ سمجھا ہو کہ اللہ کے لیے میرے اوپر دو رکعتیں (واجب) ہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں دونوں رکعتوں (یا خصلتوں) کی سے (یہ مرتبہ حاصل ہوا ہے“۱؎)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں جابر، معاذ، انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جنت میں سونے کا ایک محل دیکھا تو میں نے کہا: یہ کس کا ہے؟ کہا گیا: یہ عمر بن خطاب کا ہے“، ۳- حدیث کے الفاظ «أني دخلت البارحة الجنة» کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت میں داخل ہوا ہوں، بعض روایتوں میں ایسا ہی ہے، ۴- ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: انبیاء کے خواب وحی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3689]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1966)، و مسند احمد (5/354، 360) (صحیح)»