ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سعید بن مسیب نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی شخص اپنے کسی بھائی کے مول پر مول نہ کرے اور کوئی «نجش»(دھوکہ، فریب) نہ کرے، اور نہ کوئی شہری، کسی دیہاتی کے لیے بیچے یا مول لے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2160]
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معاذ بن معاذ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں اس سے روکا گیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال تجارت بیچے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2161]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
71. بَابُ النَّهْيِ عَنْ تَلَقِّي الرُّكْبَانِ:
71. باب: پہلے سے آگے جا کر قافلے والوں سے ملنے کی ممانعت اور یہ بیع رد کر دی جاتی ہے۔
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (تجارتی قافلوں سے) آگے بڑھ کر ملنے سے منع فرمایا ہے اور بستی والوں کو باہر والوں کا مال بیچنے سے بھی منع فرمایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2162]
مجھ سے عیاش بن عبدالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب کیا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ بیچے؟ تو انہوں نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2163]
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہ ہم سے تیمی نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جو کوئی دودھ جمع کی ہوئی بکری خریدے (وہ بکری پھیر دے) اور اس کے ساتھ ایک صاع دیدے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلہ والوں سے آگے بڑھ کر ملنے سے منع فرمایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2164]
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے اور جو مال باہر سے آ رہا ہو اس سے آگے جا کر نہ ملے جب تک وہ بازار میں نہ آئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2165]
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم آگے قافلوں کے پاس خود ہی پہنچ جایا کرتے تھے اور (شہر میں پہنچنے سے پہلے ہی) ان سے غلہ خرید لیا کرتے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات سے منع فرمایا کہ ہم اس مال کو اسی جگہ بیچیں جب تک اناج کے بازار میں نہ لائیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ ملنا بازار کے بلند کنارے پر تھا۔ (جدھر سے سوداگر آیا کرتے تھے) اور یہ بات عبیداللہ کی حدیث سے نکلتی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2166]
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ لوگ بازار کی بلند جانب جا کر غلہ خریدتے اور وہیں بیچنے لگتے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ غلہ وہاں نہ بیچیں جب تک اس کو اٹھوا کر دوسری جگہ نہ لے جائیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2167]
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے باپ عروہ نے، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا (جو اس وقت تک باندی تھیں) آئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالکوں سے نو اوقیہ چاندی پر کتابت کر لی ہے۔ شرط یہ ہوئی ہے کہ ہر سال ایک اوقیہ چاندی انہیں دیا کروں۔ اب آپ بھی میری کچھ مدد کیجئے۔ اس پر میں نے اس سے کہا کہ اگر تمہارے مالک یہ پسند کریں کہ یک مشت ان کا سب روپیہ میں ان کے لیے (ابھی) مہیا کر دوں اور تمہارا ترکہ میرے لیے ہو تو میں ایسا بھی کر سکتی ہوں۔ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے پاس گئیں۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی تجویز ان کے سامنے رکھی۔ لیکن انہوں نے اس سے انکار کیا، پھر بریرہ رضی اللہ عنہا ان کے یہاں واپس آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں) بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تو آپ کی صورت ان کے سامنے رکھی تھی مگر وہ نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں کہ ترکہ تو ہمارا ہی رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی آپ کو حقیقت حال سے خبر کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بریرہ کو تم لے لو اور انہیں ترکہ کی شرط لگانے دو۔ ترکہ تو اسی کا ہوتا ہے جو آزاد کرئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر لوگوں کے مجمع میں تشریف لے گئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا، امابعد! کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ (خرید و فروخت میں) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کتاب اللہ میں کوئی اصل نہیں ہے۔ جو کوئی شرط ایسی لگائی جائے جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو وہ باطل ہو گی۔ خواہ ایسی سو شرطیں کوئی کیوں نہ لگائے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم سب پر مقدم ہے اور اللہ کی شرط ہی بہت مضبوط ہے اور ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2168]
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے چاہا کہ ایک باندی کو خرید کر آزاد کر دیں، لیکن ان کے مالکوں نے کہا کہ ہم انہیں اس شرط پر آپ کو بیچ سکتے ہیں کہ ان کی ولاء ہمارے ساتھ رہے۔ اس کا ذکر جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شرط کی وجہ سے تم قطعاً نہ رکو۔ ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2169]