مجھ سے عیاش بن عبدالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب کیا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ بیچے؟ تو انہوں نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2163]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2163
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں اختصار ہے۔ مفصل حدیث پہلے گزر چکی ہے جس میں غلے والوں کا استقبال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2158) بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ قافلے والوں سے غلہ خریدنا جائز ہے جبکہ دوسری احادیث میں اس کی ممانعت ہے؟ ان کے درمیان تطبیق بایں طور ہے کہ اگر اس بیع سے منڈی والوں کو نقصان ہوتو منع ہے، اگر نقصان نہ ہوتو جائز ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آگے جاکر قافلے والوں سے غلہ نہ خریدو، اگر کسی نے ایسی بیع کی تو بائع جب منڈی میں آئے تو اس کو اختیار ہے کہ اس بیع کو جائز رکھے یا اسے فسخ کردے۔ “(صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 3823(1519) (2) اس حدیث میں اس بیع سے منع کرنے کے باوجود بائع کو فسخ کا اختیار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ بیع صحیح ہے ورنہ خیار کے کیا معنی ہیں؟اگر بیع فاسد ہوتی تو بائع اور مشتری کو اسے ختم کرنے پر مجبور کیا جاتا، البتہ امام بخاری ؒ نے اس قسم کی بیع کو دوٹوک الفاظ میں مردود قرار دیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2163