عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2304]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الرقاق 1 (6412)، سنن ابن ماجہ/الزہد 15 (4170) (تحفة الأشراف: 5666)، و مسند احمد (1/258، 344)، وسنن الدارمی/الرقاق 2 (2749) (صحیح)»
اس سند سے بھی عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس کو کئی اور لوگوں نے عبداللہ بن سعید بن ابی ہند سے مرفوعاً ہی روایت کیا ہے، جب کہ کچھ لوگوں نے عبداللہ بن سعید ہی کے واسطے سے (ابن عباس سے) موقوفاً روایت کیا ہے، ۳- اس باب میں انس بن مالک رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2304M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
2. باب مَنِ اتَّقَى الْمَحَارِمَ فَهُوَ أَعْبَدُ النَّاسِ
2. باب: حرام چیزوں سے بچنے والا سب سے بڑا عابد ہے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ایسا شخص ہے جو مجھ سے ان کلمات کو سن کر ان پر عمل کرے یا ایسے شخص کو سکھلائے جو ان پر عمل کرے“، ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں ایسا کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچ باتوں کو گن کر بتلایا: ”تم حرام چیزوں سے بچو، سب لوگوں سے زیادہ عابد ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم شدہ رزق پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ بے نیاز رہو گے، اور اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرو پکے سچے مومن رہو گے۔ اور دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو سچے مسلمان ہو جاؤ گے اور زیادہ نہ ہنسو اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- حسن بصری کا سماع ابوہریرہ سے ثابت نہیں، ۳- اسی طرح ایوب، یونس بن عبید اور علی بن زید سے مروی ہے ان سب کا کہنا ہے کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سنا ہے، ۴- ابوعبیدہ ناجی نے اسے حسن بصری سے روایت کرتے ہوئے اس کو حسن بصری کا قول کہا ہے اور یہ نہیں ذکر کیا کہ یہ حدیث حسن بصری ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں، اور ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2305]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12247)، و مسند احمد (2/310) (حسن) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ”حسن بصری“ کا سماع ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں ہے، نیز ”ابو طارق“ مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الصحیحہ 930)»
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (930) ، تخريج المشكلة (17)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، تمہیں ایسے فقر کا انتظار ہے جو سب کچھ بھلا ڈالنے والا ہے؟ یا ایسی مالداری کا جو طغیانی پیدا کرنے والی ہے؟ یا ایسی بیماری کا جو مفسد ہے (یعنی اطاعت الٰہی میں خلل ڈالنے والی) ہے؟ یا ایسے بڑھاپے کا جو عقل کو کھو دینے والا ہے؟ یا ایسی موت کا جو جلدی ہی آنے والی ہے؟ یا اس دجال کا انتظار ہے جس کا انتظار سب سے برے غائب کا انتظار ہے؟ یا اس قیامت کا جو قیامت نہایت سخت اور کڑوی ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اعرج ابوہریرہ سے مروی حدیث ہم صرف محرز بن ہارون کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- بشر بن عمر اور ان کے علاوہ لوگوں نے بھی اسے محرز بن ہارون سے روایت کیا ہے، ۴- معمر نے ایک ایسے شخص سے سنا ہے جس نے بسند «سعيدا المقبري عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اس میں «هل تنتظرون» کی بجائے «تنتظرون» ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2306]
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2307]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الجنائز 3 (1825)، سنن ابن ماجہ/الزہد 31 (4258) (تحفة الأشراف: 15080)، و مسند احمد (2/293) (حسن صحیح)»
ہانی مولی عثمان کہتے ہیں کہ عثمان رضی الله عنہ جب کسی قبرستان پر ٹھہرتے تو اتنا روتے کہ آپ کی داڑھی تر ہو جاتی، ان سے کسی نے کہا کہ جب آپ کے سامنے جنت و جہنم کا ذکر کیا جاتا ہے تو نہیں روتے ہیں اور قبر کو دیکھ کر اس قدر رو رہے ہیں؟ تو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے، سو اگر کسی نے قبر کے عذاب سے نجات پائی تو اس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذاب قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کے منازل سخت تر ہوں گے“، عثمان رضی الله عنہ نے مزید کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”گھبراہٹ اور سختی کے اعتبار سے قبر کی طرح کسی اور منظر کو نہیں دیکھا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف ہشام بن یوسف کی روایت سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2308]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الزہد 32 (4267) (تحفة الأشراف: 9839)، و مسند احمد (1/64) (حسن)»
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا چاہے گا، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند کرے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ کی حدیث صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، ام المؤمنین عائشہ، انس اور ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2309]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 1066 (صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ: «وأنذر عشيرتك الأقربين» نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ!، اے محمد کی بیٹی فاطمہ! اے عبدالمطلب کی اولاد! اللہ کی طرف سے تم لوگوں کے نفع و نقصان کا مجھے کچھ بھی اختیار نہیں ہے، تم میرے مال میں سے تم سب کو جو کچھ مانگنا ہو وہ مجھ سے مانگ لو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- ان میں سے بعض نے اسی طرح ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے، اور بعض نے «عن هشام عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مرسلاً روایت کی ہے اور «عن عائشة» کا ذکر نہیں کیا، ۳- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس اور ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2310]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الإیمان 89 (205)، سنن النسائی/الوصایا 6 (3678) ویأتي عند المؤلف برقم 3184 (تحفة الأشراف: 17237)، و مسند احمد (6/178) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
8. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْبُكَاءِ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ
8. باب: اللہ تعالیٰ کے ڈر سے رونے کی فضیلت کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے رونے والا شخص جہنم میں نہیں جا سکتا جب تک کہ دودھ تھن میں واپس نہ پہنچ جائے اور اللہ کی راہ کا گرد و غبار اور جہنم کا دھواں دونوں اکٹھا نہیں ہو سکتے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوریحانہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- محمد بن عبدالرحمٰن آل طلحہ کے آزاد کردہ غلام ہیں مدنی ہیں، ثقہ ہیں، ان سے شعبہ اور سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2311]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 1633 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3828) ، التعليق الرغيب (2 / 166)
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سن رہا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ بیشک آسمان چرچرا رہا ہے اور اسے چرچرانے کا حق بھی ہے، اس لیے کہ اس میں چار انگل کی بھی جگہ نہیں خالی ہے مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضور رکھے ہوئے ہے، اللہ کی قسم! جو میں جانتا ہوں اگر وہ تم لوگ بھی جان لو تو ہنسو گے کم اور رؤ گے زیادہ اور بستروں پر اپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو گے، اور یقیناً تم لوگ اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے میدانوں میں نکل جاتے“، (اور ابوذر رضی الله عنہ) فرمایا کرتے تھے کہ ”کاش میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اور یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس کے علاوہ ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے کہ ابوذر رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے: ”کاش میں ایک درخت ہوتا کہ جسے لوگ کاٹ ڈالتے“، ۳- اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ، ابن عباس اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2312]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الزہد 19 (4190) (تحفة الأشراف: 11986) (حسن) (حدیث میں ”لوددت …“ کا جملہ مرفوع نہیں ہے، ابو ذر رضی الله عنہ کا اپنا قول ہے)»
قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله: " لوددت.... "، ابن ماجة (4190)