الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


سنن ترمذي کل احادیث (3964)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الولاء والهبة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: ولاء اور ہبہ کے احکام و مسائل
1. باب مَا جَاءَ أَنَّ الْوَلاَءَ لِمَنْ أَعْتَقَ
1. باب: ولاء (میراث) کا حق آزاد کرنے والے کو حاصل ہے۔
حدیث نمبر: 2125
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ فَاشْتَرَطُوا الْوَلَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْطَى الثَّمَنَ، أَوْ لِمَنْ وَلِيَ النِّعْمَةَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ کو خریدنے (اور آزاد کرنے) کا ارادہ کیا تو بریرہ کے گھر والوں نے ولاء (میراث) کی شرط رکھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولاء (میراث) کا حق اسی کو حاصل ہے جو قیمت ادا کرے یا آزاد کرنے کی نعمت کا مالک ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2125]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ، وکذا رقم: 1256 (تحفة الأشراف: 15992) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2589)

2. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنْ بَيْعِ الْوَلاَءِ، وَعَنْ هِبَتِهِ
2. باب: ولاء کے بیچنے اور اسے ہبہ کرنے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2126
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنْ بَيْعِ الْوَلَاءِ، وَعَنْ هِبَتِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ " نَهَى عَنْ بَيْعِ الْوَلَاءِ، وَعَنْ هِبَتِهِ "، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ومالك بن أنس، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، وَيُرْوَى عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: لَوَدِدْتُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ دِينَارٍ حِينَ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ، أَذِنَ لِي حَتَّى كُنْتُ أَقُومُ إِلَيْهِ فَأُقَبِّلُ رَأْسَهُ، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ وَهْمٌ، وَهِمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، وَالصَّحِيحُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَتَفَرَّدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کے بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ہم اسے صرف عبداللہ بن دینار کے واسطہ سے ابن عمر کی روایت سے جانتے ہیں، اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے ولاء بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔ شعبہ، سفیان ثوری اور مالک بن انس نے بھی یہ حدیث عبداللہ بن دینار سے روایت ہے۔ شعبہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: میری خواہش تھی کہ عبداللہ بن دینار اس حدیث کو بیان کرتے وقت مجھے اجازت دے دیتے اور میں کھڑا ہو کر ان کا سر چوم لیتا،
۳- یحییٰ بن سلیم نے اس حدیث کی روایت کرتے وقت سند یوں بیان کی ہے «عن عبيد الله بن عمر عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» لیکن اس سند میں وہم ہے اور یہ وہم یحییٰ بن سلیم کی جانب سے ہوا ہے، صحیح سند یوں ہے «عن عبيد الله بن عمر عن عبد الله بن دينار عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» ۱؎ عبیداللہ بن عمر سے اسی طرح کئی لوگوں نے روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
عبیداللہ بن دینار اس حدیث کی روایت کرنے میں منفرد ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2126]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 1236 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2747 و 2748)

3. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ أَوِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ
3. باب: آزاد کرنے والے کے علاوہ دوسرے کو مالک بنانے اور دوسرے کے باپ کی طرف نسبت کرنے والے کا بیان​۔
حدیث نمبر: 2127
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ، فَقَالَ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ عِنْدَنَا شَيْئًا نَقْرَؤُهُ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ وَهَذِهِ الصَّحِيفَةَ، صَحِيفَةٌ فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ، وَأَشْيَاءٌ مِنَ الْجِرَاحَاتِ، فَقَدْ كَذَبَ، وَقَالَ فِيهَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا، وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى بَعْضُهُمْ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَهُ.
یزید بن شریک تیمی کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ نے ہمارے درمیان خطبہ دیا اور کہا: جو کہتا ہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور اس صحیفہ - جس کے اندر اونٹوں کی عمر اور جراحات (زخموں) کے احکام ہیں - کے علاوہ کوئی اور چیز ہے جسے ہم پڑھتے ہیں تو وہ جھوٹ کہتا ہے ۱؎ علی رضی الله عنہ نے کہا: اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیر سے لے کر ثور تک مدینہ حرم ہے ۲؎ جو شخص اس کے اندر کوئی بدعت ایجاد کرے یا بدعت ایجاد کرنے والے کو پناہ دے، اس پر اللہ، اس کے فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس آدمی کی نہ کوئی فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل اور جو شخص دوسرے کے باپ کی طرف اپنی نسبت کرے یا اپنے آزاد کرنے والے کے علاوہ کو اپنا مالک بنائے اس کے اوپر اللہ، اس کے فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اس کی نہ فرض عبادت قبول ہو گی اور نہ نفل، مسلمانوں کی طرف سے دی جانے والی پناہ ایک ہے ان کا معمولی شخص بھی اس پناہ کا مالک ہے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض لوگوں نے «عن الأعمش عن إبراهيم التيمي عن الحارث بن سويد عن علي» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،
۳- یہ حدیث کئی سندوں سے علی کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2127]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/العلم 39 (111)، وفضائل المدینة 1 (1867)، والجہاد 171 (3047)، والجزیة 10 (3172)، والفرائض 21 (6755)، والدیات 24 (6903)، والإعتصام 5 (7300)، صحیح مسلم/الحج 85 (1370)، سنن ابی داود/ المناسک 99 (2034)، سنن النسائی/القسامة 9، 10 (4748)، سنن ابن ماجہ/الدیات 21 (2658) (تحفة الأشراف: 10317)، و مسند احمد (1/122، 126، 151)، وسنن الدارمی/الدیات 5 (2401)، وانظر أیضا ماتقدم برقم: 1412 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1058) ، نقد الكتانى (42) ، صحيح أبي داود (1773 و 1774)

4. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَنْتَفِي مِنْ وَلَدِهِ
4. باب: باپ اپنے بچے کا انکار کر دے تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2128
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْعَطَّارُ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ "، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَمَا أَلْوَانُهَا؟ "، قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: " فَهَلْ فِيهَا أَوْرَقُ "، قَالَ: نَعَمْ، إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا، قَالَ: " أَنَّى أَتَاهَا ذَلِكَ "، قَالَ: لَعَلَّ عِرْقًا نَزَعَهَا، قَالَ: " فَهَذَا لَعَلَّ عِرْقًا نَزَعَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی فزارہ کے ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیوی سے ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے پوچھا: وہ کس رنگ کے ہیں؟ اس نے کہا: سرخ۔ آپ نے پوچھا: کیا اس میں کوئی مٹمیلے رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، اس میں ایک خاکستری رنگ کا بھی ہے۔ آپ نے پوچھا: وہ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا: شاید وہ کوئی خاندانی رگ کھینچ لایا ہو گا ۱؎، آپ نے فرمایا: اس لڑکے نے بھی شاید کوئی خاندانی رگ کھینچ لائی ہو اور کالے رنگ کا ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2128]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الطلاق 26 (5305)، والحدود 41 (6847)، والإعتصام 12 (7314)، صحیح مسلم/اللعان 1 (1500)، سنن ابی داود/ الطلاق 28 (2260)، سنن النسائی/الطلاق 46 (35090)، سنن ابن ماجہ/النکاح 58 (2200) (تحفة الأشراف: 13129)، مسند احمد (2/234، 239، 409) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2102)

5. باب مَا جَاءَ فِي الْقَافَةِ
5. باب: نسب میں قیافہ شناسی کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2129
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا مَسْرُورًا تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ، فَقَالَ: " أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا نَظَرَ آنِفًا إِلَى زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، فَقَالَ: هَذِهِ الْأَقْدَامُ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى ابْنُ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَزَادَ فِيهِ: " أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا مَرَّ عَلَى زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَدْ غَطَّيَا رُءُوسَهُمَا وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الْأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ "، وَهَكَذَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدِ احْتَجَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِهَذَا الْحَدِيثِ فِي إِقَامَةِ أَمْرِ الْقَافَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوشی خوشی ان کے پاس تشریف لائے، آپ کے چہرے کے خطوط چمک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے دیکھا نہیں، ابھی ابھی مجزز نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو دیکھ کر کہا ہے کہ یہ قدم (یعنی ان کا رشتہ) ایک دوسرے سے ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابن عیینہ نے یہ حدیث «عن الزهري عن عروة عن عائشة» کی سند سے روایت کی ہے۔ اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے، آپ نے فرمایا: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ مجزز، زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید رضی الله عنہ کے پاس سے گزرا، اس وقت وہ دونوں اپنا سر ڈھانپے ہوئے تھے اور ان کے پیر کھلے ہوئے تھے تو اس نے کہا: ان قدموں (کا رشتہ) ایک دوسرے سے ہیں،
۳- اسی طرح ہم سے سعید بن عبدالرحمٰن اور کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن سفيان بن عيينة هذا الحديث عن الزهري عن عروة عن عائشة» کی سند سے بیان کی ہے، یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۴- بعض اہل علم نے اس حدیث سے قیافہ کے معتبر ہونے پر استدلال کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2129]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المناقب 23 (3555)، وفضائل الصحابة 17 (3731)، والفرائض 31 (6770)، صحیح مسلم/الرضاع 11 (1459)، سنن ابی داود/ الطلاق 31 (2267، 2268)، سنن النسائی/الطلاق 51 (3523، 3524)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 21 (2349) (تحفة الأشراف: 16581)، مسند احمد (6/22682) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2349)

6. باب فِي حَثِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى التَّهَادِي
6. باب: ہدیہ دینے پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ترغیب کا بیان۔
حدیث نمبر: 2130
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَاءٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تَهَادَوْا فَإِنَّ الْهَدِيَّةَ تُذْهِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ، وَلَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا، وَلَوْ شِقَّ فِرْسِنِ شَاةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو مَعْشَرٍ اسْمُهُ نَجِيحٌ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس لیے کہ ہدیہ دل کی کدورت کو دور کرتا ہے، کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہدیہ کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کے کھر کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،
۲- ابومعشر کا نام نجیح ہے وہ بنی ہاشم کے (آزاد کردہ) غلام ہیں، ان کے حافظے کے تعلق سے بعض اہل علم نے ان کے بارے میں کلام کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2130]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13072) (ضعیف) (سند میں ابو معشر سندی ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث کا آخری ٹکڑا، ابوہریرہ رضی الله عنہ ہی سے صحیحین میں مروی ہے، دیکھیے: صحیح البخاری/الأدب 30 (6017)، صحیح مسلم/الزکاة 30 (1030)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن الشطر الثاني منه صحيح، المشكاة (3028) // ضعيف الجامع الصغير (2489) //

7. بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الرُّجُوعِ فِي الْهِبَةِ​
7. باب: ہدیہ دے کر واپس لینے کی کراہت کا بیان​۔
حدیث نمبر: 2131
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُكَتِبُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا، كَالْكَلْبِ أَكَلَ حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَاءَ، ثُمَّ عَادَ فَرَجَعَ فِي قَيْئِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ہدیہ دے کر پھر واپس لے لے اس کی مثال اس کتے کی طرح ہے جو کھاتا رہے یہاں تک کہ جب وہ آسودہ ہو جائے تو قے کرے، پھر اسے چاٹ لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں ابن عباس اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2131]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 1299 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (6 / 63)

حدیث نمبر: 2132
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنِي طَاوُسٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، يَرْفًعَانِ الْحَدِيثَ، قَالَ: " لَا يَحِلُّ للِرَّجُلِ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً، ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا إِلا الْوِالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ، وَمَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا، كَمَثَلِ الْكَلْبِ أَكَلَ حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَاءَ ثُمَّ عَادَ فِي قَيْئِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حِدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ الشَّافِعيُّ: لَا يَحِلُّ لِمَنْ وَهَبَ هِبَةً أَنْ يَرْجِعَ فِيهَا إِلَّا الْوَالِدَ فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ فِيمَا أَعْطَى وَلَدَهُ، وَاحجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی ہدیہ دے، پھر اسے واپس لے لے، سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دیتا ہے (وہ اسے واپس لے سکتا ہے) اور جو شخص کوئی عطیہ دے پھر واپس لے لے اس کی مثال اس کتے کی طرح ہے جو کھاتا رہے یہاں تک کہ جب آسودہ ہو جائے تو قے کرے، پھر اپنا قے کھا لے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- شافعی کہتے ہیں: کسی ہدیہ دینے والے کے لیے جائز نہیں کہ ہدیہ واپس لے لے سوائے باپ کے، کیونکہ اس کے لیے جائز ہے کہ جو ہدیہ اپنے بیٹے کو دیا ہے اسے واپس لے لے، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الولاء والهبة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2132]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 1299 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (2131)