ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ریشم کا لباس اور سونا میری امت کے مردوں پر حرام ہے اور ان کی عورتوں کے لیے حلال کیا گیا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، علی، عقبہ بن عامر، انس، حذیفہ، ام ہانی، عبداللہ بن عمرو، عمران بن حصین، عبداللہ بن زبیر، جابر، ابوریحان، ابن عمر، براء، اور واثلہ بن اسقع رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1720]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الزینة 40 (5151)، و74 (5267)، (تحفة الأشراف: 8998)، و مسند احمد (4/392، 393، 407) (صحیح)»
سوید بن غفلہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر نے مقام جابیہ میں خطبہ دیا اور کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم سے منع فرمایا سوائے دو، یا تین، یا چار انگشت کے برابر ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1721]
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف اور زبیر بن عوام رضی الله عنہما نے ایک غزوہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوؤں کی شکایت کی، تو آپ نے انہیں ریشم کی قمیص کی اجازت دے دی، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے ان کے بدن پر ریشم کی قمیص دیکھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1722]
واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی الله عنہ (ہمارے پاس) آئے تو میں ان کے پاس گیا، انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ رضی الله عنہ ہوں، انس رضی الله عنہ رو پڑے اور بولے: تم سعد کی شکل کے ہو، سعد بڑے دراز قد اور لمبے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ریشمی جبہ بھیجا گیا جس میں زری کا کام کیا ہوا تھا ۱؎ آپ اسے پہن کر منبر پر چڑھے، کھڑے ہوئے یا بیٹھے تو لوگ اسے چھو کر کہنے لگے: ہم نے آج کی طرح کبھی کوئی کپڑا نہیں دیکھا، آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس پر تعجب کر رہے ہو؟ جنت میں سعد کے رومال اس سے کہیں بہتر ہیں جو تم دیکھ رہے ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں اسماء بنت ابی بکر سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1723]
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سرخ جوڑے میں کسی لمبے بال والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال شانوں کو چھوتے تھے، آپ کے شانوں کے درمیان دوری تھی، آپ نہ کوتاہ قد تھے اور نہ لمبے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر بن سمرہ، ابورمثہ اور ابوجحیفہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1724]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المناقب 33 (3551)، واللباس 35 (5848)، و68 (5903)، صحیح مسلم/الفضائل 25 (2337)، سنن ابی داود/ الترجل 9 (4183)، سنن النسائی/الزینة 9 (5063)، و 59 (5234)، و 93 (5248)، سنن ابن ماجہ/اللباس 20 (3599)، (تحفة الأشراف: 1847)، و مسند احمد (4/281، 295) و یأتي برقم 3635 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3599)
5. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْمُعَصْفَرِ لِلرِّجَالِ
5. باب: مردوں کے لیے زرد رنگ کے کپڑے پہننے کی کراہت کا بیان۔
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قسی کے بنے ہوئے ریشمی اور زرد رنگ کے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1725]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم 264 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3602) ، ويأتي بأتم (3637)
سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور پوستین (چمڑے کا لباس) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا، اور حرام وہ ہے، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کر دیا اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کر دیا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، ۲- اسے سفیان نے بسند «سليمان التيمي عن أبي عثمان عن سلمان» موقوفاً روایت کیا ہے، گویا یہ موقوف حدیث زیادہ صحیح ہے، اس باب میں مغیرہ سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: میں اس کو محفوظ نہیں سمجھتا ہوں، سفیان نے بسند «سليمان التيمي عن أبي عثمان عن سلمان» موقوفا روایت کی ہے، ۴- امام بخاری کہتے ہیں: سیف بن ہارون مقارب الحدیث ہیں، اور سیف بن محمد عاصم سے روایت کرنے میں ذاہب الحدیث ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1726]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الأطعمة 60 (3367)، (تحفة الأشراف: 4496) (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی سیف سخت ضعیف ہیں، دیکھئے: غایة المرام رقم: 3، وتراجع الألبانی 428)»
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (3366)
7. باب مَا جَاءَ فِي جُلُودِ الْمَيْتَةِ إِذَا دُبِغَتْ
7. باب: دباغت کے بعد مردار جانوروں کی کھال کے استعمال کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک بکری مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری والے سے کہا: تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی؟ پھر تم دباغت دے کر اس سے فائدہ حاصل کرتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1727]
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس چمڑے کو دباغت دی گئی، وہ پاک ہو گیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بواسطہ ابن عباس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری سندوں سے بھی اسی طرح مروی ہے، ۳- یہ حدیث ابن عباس سے کبھی میمونہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور کبھی سودہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، ۴- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ابن عباس کی حدیث اور میمونہ کے واسطہ سے مروی ابن عباس کی حدیث کو صحیح کہتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا: احتمال ہے کہ ابن عباس نے بواسطہ میمونہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہو، اور ابن عباس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست بھی روایت کیا، اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۵- نضر بن شمیل نے بھی اس کا یہی مفہوم بیان کیا ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: نضر بن شمیل نے کہا: «إهاب» اس جانور کے چمڑے کو کہا جاتا ہے، جس کا گوشت کھایا جاتا ہے، ۶- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں: مردار کا چمڑا دباغت دینے کے بعد پاک ہو جاتا ہے“، ۷- شافعی کہتے ہیں: کتے اور سور کے علاوہ جس مردار جانور کا چمڑا دباغت دیا جائے وہ پاک ہو جائے گا، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے، ۸- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں نے درندوں کے چمڑوں کو مکروہ سمجھا ہے، اگرچہ اس کو دباغت دی گئی ہو، عبداللہ بن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ان لوگوں نے اسے پہننے اور اس میں نماز ادا کرنے کو برا سمجھا ہے، ۹- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «أيما إهاب دبغ فقد طهر» کا مطلب یہ ہے کہ اس جانور کا چمڑا دباغت سے پاک ہو جائے گا جس کا گوشت کھایا جاتا ہے، ۱۰- اس باب میں سلمہ بن محبق، میمونہ اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1728]
عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط آیا کہ تم لوگ مردہ جانوروں کے چمڑے ۱؎ اور پٹھوں سے فائدے نہ حاصل کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث عبداللہ بن عکیم سے ان کے شیوخ کے واسطہ سے بھی آئی ہے، ۳- اکثر اہل علم کا اس پر عمل نہیں ہے، ۴- عبداللہ بن عکیم سے یہ حدیث مروی ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط آپ کی وفات سے دو ماہ پہلے آیا، ۵- میں نے احمد بن حسن کو کہتے سنا، احمد بن حنبل اسی حدیث کو اختیار کرتے تھے اس وجہ سے کہ اس میں آپ کی وفات سے دو ماہ قبل کا ذکر ہے، وہ یہ بھی کہتے تھے: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری حکم تھا، ۶- پھر احمد بن حنبل نے اس حدیث کو چھوڑ دیا اس لیے کہ راویوں سے اس کی سند میں اضطراب واقع ہے، چنانچہ بعض لوگ اسے عبداللہ بن عکیم سے ان کے جہینہ کے شیوخ کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1729]