طلق بن علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سبیعہ نے اپنے شوہر کی موت کے تئیس یا پچیس دن بعد بچہ جنا، اور جب وہ نفاس سے پاک ہو گئی تو نکاح کے لیے زینت کرنے لگی، اس پر اعتراض کیا گیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر وہ ایسا کرتی ہے (تو حرج کی بات نہیں) اس کی عدت پوری ہو چکی ہے“۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1193]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الطلاق 56 (3539)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 7 (2027)، مسند احمد (4/305) (تحفة الأشراف: 12053) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ سند میں انقطاع ہے جسے مولف نے بیان کر دیا ہے)»
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوسنابل کی حدیث مشہور اور اس سند سے غریب ہے، ۲- ہم ابوسنابل سے اسود کا سماع نہیں جانتے ہیں، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ مجھے نہیں معلوم کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوسنابل زندہ رہے یا نہیں، ۴- اس باب میں ام سلمہ رضی الله عنہا سے بھی حدیث روایت ہے، ۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ حاملہ عورت جس کا شوہر فوت ہو چکا ہو جب بچہ جن دے تو اس کے لیے شادی کرنا جائز ہے، اگرچہ اس کی عدت پوری نہ ہوئی ہو۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۶- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت بعد میں پوری ہو گی اس کے مطابق وہ عدت گزارے گی، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1193M]
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ ابوہریرہ، ابن عباس اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رضی الله عنہم نے آپس میں اس حاملہ عورت کا ذکر کیا جس کا شوہر فوت ہو چکا ہو اور اس نے شوہر کی وفات کے بعد بچہ جنا ہو، ابن عباس رضی الله عنہما کا کہنا تھا کہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت بعد میں پوری ہو گی اس کے مطابق وہ عدت گزارے گی، اور ابوسلمہ کا کہنا تھا کہ جب اس نے بچہ جن دیا تو اس کی عدت پوری ہو گئی، اس پر ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے یعنی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں۔ پھر ان لوگوں نے (ایک شخص کو) ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس (مسئلہ معلوم کرنے کے لیے) بھیجا، تو انہوں نے کہا: سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شوہر کی وفات کے کچھ ہی دنوں بعد بچہ جنا۔ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (شادی کے سلسلے میں) مسئلہ پوچھا تو آپ نے اسے (دم نفاس ختم ہوتے ہی) شادی کرنے کی اجازت دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1194]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الطلاق 2 (4909)، صحیح مسلم/الطلاق 8 (1485)، سنن النسائی/الطلاق 56 (3542)، 3544)، مسند احمد (6/289)، سنن الدارمی/الطلاق 11 (2325) (تحفة الأشراف: 18157 و 18206) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الطلاق 39 (5318)، صحیح مسلم/الطلاق (المصدر المذکور)، سنن النسائی/الطلاق 56 (3539، 3540، 3541، 3543، 3545، 3546، 3547)، مسند احمد (6/312، 319) من غیر ہذا الوجہ، ولہ أیضا طرق أخری بسیاق آخر، انظر حدیث رقم (2306)، عند أبي داود و3548) عند النسائي۔»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2113) ، صحيح أبي داود تحت الحديث (1196)
18. باب مَا جَاءَ فِي عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا
حمید بن نافع سے روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ نے انہیں یہ تینوں حدیثیں بتائیں (ان میں سے ایک یہ ہے) زینب کہتی ہیں: میں ام المؤمنین ام حبیبہ رضی الله عنہا کے پاس آئی جس وقت ان کے والد ابوسفیان صخر بن حرب کا انتقال ہوا، تو انہوں نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یا کسی دوسری چیز کی زردی تھی، پھر انہوں نے اسے ایک لڑکی کو لگایا پھر اپنے دونوں رخساروں پر لگایا، پھر کہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے اس پر وہ چار ماہ دس دن تک سوگ کرے گی۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1195]
(دوسری حدیث یہ ہے) زینب کہتی ہیں: پھر میں زینب بنت جحش رضی الله عنہا کے پاس آئی جس وقت ان کے بھائی کا انتقال ہوا تو انہوں نے خوشبو منگائی اور اس میں سے لگایا پھر کہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے شوہر کے، وہ اس پر چار ماہ دس دن سوگ کرے گی“۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1196]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 15879) (صحیح)»
(تیسری حدیث یہ ہے) زینب کہتی ہیں: میں نے اپنی ماں ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیٹی کا شوہر مر گیا ہے، اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا ہم اس کو سرمہ لگا دیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“۔ دو یا تین مرتبہ اس عورت نے آپ سے پوچھا اور آپ نے ہر بار فرمایا: ”نہیں“، پھر آپ نے فرمایا: ”(اب تو اسلام میں) عدت چار ماہ دس دن ہے، حالانکہ جاہلیت میں تم میں سے (فوت شدہ شوہر والی بیوہ) عورت سال بھر کے بعد اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زینب کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری کی بہن فریعہ بنت مالک، اور حفصہ بنت عمر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم کا اسی پر عمل ہے کہ جس عورت کا شوہر مر گیا ہو وہ اپنی عدت کے دوران خوشبو اور زینت سے پرہیز کرے گی۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1197]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 18259) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2114)
19. باب مَا جَاءَ فِي الْمُظَاهِرِ يُوَاقِعُ قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ
19. باب: ظہار کرنے والے کا بیان جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے جماع کر بیٹھے۔
سلمہ بن صخر بیاضی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظہار ۱؎ کرنے والے کے بارے میں جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے مجامعت کر لیتا ہے فرمایا: ”اس کے اوپر ایک ہی کفارہ ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ سفیان، شافعی، مالک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ۳- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کر بیٹھے تو اس پر دو کفارہ ہے۔ یہ عبدالرحمٰن بن مہدی کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1198]
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے اپنی بیوی سے ظہار کر رکھا تھا اور پھر اس کے ساتھ جماع کر لیا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کر رکھا ہے اور کفارہ ادا کرنے سے پہلے میں نے اس سے جماع کر لیا تو کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تم پر رحم کرے کس چیز نے تجھ کو اس پر آمادہ کیا؟“ اس نے کہا: میں نے چاند کی روشنی میں اس کی پازیب دیکھی (تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا) آپ نے فرمایا: ”اس کے قریب نہ جانا جب تک کہ اسے کر نہ لینا جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1199]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الطلاق 17 (2221، 2222) (مرسلا بدون ذکر ابن عباس و موصولا بذکرہ (برقم: 2223)، سنن النسائی/الطلاق 33 (3487)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 26 (2065)، (تحفة الأشراف: 6036) (صحیح)»
ابوسلمہ اور محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان کا بیان ہے کہ سلمان بن صخر انصاری رضی الله عنہ نے جو بنی بیاضہ کے ایک فرد ہیں اپنی بیوی کو اپنے اوپر مکمل ماہ رمضان تک اپنی ماں کی پشت کی طرح (حرام) قرار دے لیا۔ تو جب آدھا رمضان گزر گیا تو ایک رات وہ اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم ایک غلام آزاد کرو“، انہوں نے کہا: مجھے یہ میسر نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو“، انہوں نے کہا: میں اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو آپ نے فرمایا: ”ساٹھ مسکین کو کھانا کھلاؤ“، انہوں نے کہا: میں اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فروۃ بن عمرو سے فرمایا: ”اسے یہ کھجوروں کا ٹوکرا دے دو تاکہ یہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دے“، «عرق» ایک پیمانہ ہے جس میں پندرہ صاع یا سولہ صاع غلہ آتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- سلمان بن صخر کو سلمہ بن صخر بیاضی بھی کہا جاتا ہے۔ ۳- ظہار کے کفارے کے سلسلے میں اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1200]
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے ایلاء ۱؎ کیا اور (ان سے صحبت کرنا اپنے اوپر) حرام کر لیا۔ پھر آپ نے حرام کو حلال کر لیا اور قسم کا کفارہ ادا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مسلمہ بن علقمہ کی حدیث کو جسے انہوں نے داود سے روایت کی ہے: علی بن مسہر وغیرہ نے بھی داود سے (روایت کی ہے مگر) داود نے شعبی سے مرسلاً روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایلاء کیا۔ اس میں مسروق اور عائشہ کے واسطے کا ذکر نہیں ہے، اور یہ مسلمہ بن علقمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس اور ابوموسیٰ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ایلاء یہ ہے کہ آدمی چار ماہ یا اس سے زیادہ دنوں تک اپنی بیوی کے قریب نہ جانے کی قسم کھا لے، ۳- جب چار ماہ گزر جائیں تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب چار ماہ گزر جائیں تو اسے قاضی کے سامنے کھڑا کیا جائے گا، یا تو رجوع کر لے یا طلاق دیدے۔ ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب چار ماہ گزر جائیں تو ایک طلاق بائن خودبخود پڑ جاتی ہے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1201]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الطلاق 28 (2082) (تحفة الأشراف: 7621) (ضعیف) (سند میں مسلمہ بن علقمہ صدوق تو ہیں مگر ان کا حافظہ کبھی خطا کر جاتا تھا، ان کے بالمقابل ”علی بن مسہر“ زیادہ یاد داشت والے ہیں اور ان کی روایت میں ارسال“ ہے جسے مؤلف نے بیان کر دیا ہے)»