الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 772
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامَيْنِ يَوْمِ الْأَضْحَى وَيَوْمِ الْفِطْرِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ: وَعَمْرُو بْنُ يَحْيَى هُوَ ابْنُ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ الْمَازِنِيُّ الْمَدَنِيُّ وَهُوَ ثِقَةٌ، رَوَى لَهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَشُعْبَةُ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو روزوں سے منع فرمایا: یوم الاضحی (بقر عید) کے روزے سے اور یوم الفطر (عید) کے روزے سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر، علی، عائشہ، ابوہریرہ، عقبہ بن عامر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- عمرو بن یحییٰ ہی عمارہ بن ابی الحسن مازنی ہیں، وہ مدینے کے رہنے والے ہیں اور ثقہ ہیں۔ سفیان ثوری، شعبہ اور مالک بن انس نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 772]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/ /الصوم 66 (1991)، صحیح مسلم/الصیام 22 (827)، سنن ابی داود/ الصیام 48 (2417)، (تحفة الأشراف: 4404) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/جزاء الصید 26 (1864)، سنن ابن ماجہ/الصیام 36 (1721)، مسند احمد (3/34)، سنن الدارمی/الصوم 43 (1794)، من غیر ہذا الطریق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح (1721)

59. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّوْمِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ
59. باب: ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 773
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَوْمُ عَرَفَةَ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَسَعْدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ، وَنُبَيْشَةَ، وَبِشْرِ بْنِ سُحَيْمٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ، وَأَنَسٍ، وَحَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ، وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَعَائِشَةَ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَكْرَهُونَ الصِّيَامَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ، إِلَّا أَنَّ قَوْمًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ رَخَّصُوا لِلْمُتَمَتِّعِ إِذَا لَمْ يَجِدْ هَدْيًا وَلَمْ يَصُمْ فِي الْعَشْرِ أَنْ يَصُومَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَهْلُ الْعِرَاقِ يَقُولُونَ: مُوسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ، وَأَهْلُ مِصْرَ يَقُولُونَ: مُوسَى بْنُ عُلِيٍّ، وقَالَ: سَمِعْت قُتَيْبَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ، يَقُولُ: قَالَ مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ: لَا أَجْعَلُ أَحَدًا فِي حِلٍّ صَغَّرَ اسْمَ أَبِي.
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوم عرفہ ۱؎، یوم نحر ۲؎ اور ایام تشریق ۳؎ ہماری یعنی اہل اسلام کی عید کے دن ہیں، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، سعد، ابوہریرہ، جابر، نبیشہ، بشر بن سحیم، عبداللہ بن حذافہ، انس، حمزہ بن عمرو اسلمی، کعب بن مالک، عائشہ، عمرو بن العاص اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ ایام تشریق میں روزہ رکھنے کو حرام قرار دیتے ہیں۔ البتہ صحابہ کرام وغیرہم کی ایک جماعت نے حج تمتع کرنے والے کو اس کی رخصت دی ہے جب وہ ہدی نہ پائے اور اس نے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن میں روزہ نہ رکھے ہوں کہ وہ ایام تشریق میں روزہ رکھے۔ مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 773]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/ الصیام 49 (2419)، سنن النسائی/المناسک 195 (3007)، (تحفة الأشراف: 9941)، سنن الدارمی/الصوم 47 (1805) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2090) ، الإرواء (4 / 130)

60. باب كَرَاهِيَةِ الْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ
60. باب: روزہ دار کے پچھنا لگوانے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 774
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ، ومحمود بن غيلان، ويحيى بن موسى، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَارِظٍ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَسَعْدٍ، وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، وَثَوْبَانَ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَعَائِشَةَ، وَمَعْقِلِ بْنِ سِنَانٍ وَيُقَالُ ابْنُ يَسَارٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي مُوسَى، وَبِلَالٍ، وَسَعْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَذُكِرَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَاب حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَذُكِرَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ: أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَاب حَدِيثُ ثَوْبَانَ، وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، لِأَنَّ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ رَوَى عَنْ أَبِي قِلَابَةَ الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا، حَدِيثَ ثَوْبَانَ، وَحَدِيثَ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ الْحِجَامَةَ لِلصَّائِمِ، حَتَّى أَنَّ بَعْضَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ احْتَجَمَ بِاللَّيْلِ، مِنْهُمْ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، وَابْنُ عُمَرَ، وَبِهَذَا يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت إِسْحَاق بْنَ مَنْصُورٍ، يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ: مَنِ احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ، قَالَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ: وَهَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق. حَدَّثَنَا الزَّعْفَرَانِيُّ، قَالَ: وقَالَ الشَّافِعِيُّ: قَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّهُ احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ " وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ " وَلَا أَعْلَمُ وَاحِدًا مِنْ هَذَيْنِ الْحَدِيثَيْنِ ثَابِتًا، وَلَوْ تَوَقَّى رَجُلٌ الْحِجَامَةَ وَهُوَ صَائِمٌ كَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ، وَلَوِ احْتَجَمَ صَائِمٌ لَمْ أَرَ ذَلِكَ أَنْ يُفْطِرَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا كَانَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ بِبَغْدَادَ، وَأَمَّا بِمِصْرَ فَمَالَ إِلَى الرُّخْصَةِ وَلَمْ يَرَ بِالْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا، وَاحْتَجَّ بِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ.
رافع بن خدیج رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سینگی (پچھنا) لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ نہیں رہا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح رافع بن خدیج کی روایت ہے،
۳- اور علی بن عبداللہ (ابن المدینی) کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح ثوبان اور شداد بن اوسکی حدیثیں ہیں، اس لیے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ سے ثوبان اور شداد بن اوس دونوں کی حدیثوں کی ایک ساتھ روایت کی ہے،
۴- اس باب میں علی، سعد، شداد بن اوس، ثوبان، اسامہ بن زید، عائشہ، معقل بن سنان (ابن یسار بھی کہا جاتا ہے)، ابوہریرہ، ابن عباس، ابوموسیٰ، بلال اور سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے روزہ دار کے لیے پچھنا لگوانے کو مکروہ قرار دیا ہے، یہاں تک کہ بعض صحابہ نے رات کو پچھنا لگوایا۔ ان میں موسیٰ اشعری، اور ابن عمر بھی ہیں۔ ابن مبارک بھی یہی کہتے ہیں:
۶- عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں کہ جس نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا، اس پر اس کی قضاء ہے، اسحاق بن منصور کہتے ہیں: اسی طرح احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی کہا ہے،
۷- شافعی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: پچھنا لگانے اور لگوانے والے دونوں نے روزہ توڑ دیا، اور میں ان دونوں حدیثوں میں سے ایک بھی صحیح نہیں جانتا، لیکن اگر کوئی روزہ کی حالت میں پچھنا لگوانے سے اجتناب کرے تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے، اور اگر کوئی روزہ دار پچھنا لگوا لے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا،
۸- بغداد میں شافعی کا بھی یہی قول تھا کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ مصر میں وہ رخصت کی طرف مائل ہو گئے تھے اور روزہ دار کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں احرام کی حالت میں پچھنا لگوایا تھا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 774]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3556) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1679 - 1681)

61. باب مَا جَاءَ مِنَ الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
61. باب: روزہ دار کے لیے پچھنا لگوانے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 775
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. هَكَذَا رَوَى وَهِيبٌ نَحْوَ رِوَايَةِ عَبْدِ الْوَارِثِ، وَرَوَى إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، آپ محرم تھے اور روزے سے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے،
۲- اسی طرح وہیب نے بھی عبدالوارث کی طرح روایت کی ہے،
۳- اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے ایوب سے اور ایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور، عکرمہ نے اس میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 775]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصوم 32 (1938)، والطب 12 (5695)، سنن ابی داود/ الصیام 29 (2372)، (تحفة الأشراف: 5989) (صحیح) ”احتجم وھو صائم“ کے لفظ سے صحیح ہے جو بسند عبدالوارث صحیح بخاری میں موجود ہے، اور ترمذی کا یہ سیاق سنن ابی داود میں بسند یزید عن مقسم عن ابن عباس موجود ہے، جب کہ حکم اور حجاج نے مقسم سے روایت میں ”محرم“ کا لفظ نہیں ذکر کیا ہے، در اصل الگ الگ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دونوں حالت میں حجامت کرائی، جس کا ذکر صحیح بخاری میں بسند وہیب عن ایوب، عن عکرمہ، عن ابن عباس ہے کہ أن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احتجم وهو محرم، واحتجم وهو صائم: 1835، 1938) پتہ چلا کہ پچھنا لگوانے کا یہ کام حالت صوم واحرام میں ایک ساتھ نہیں ہوا ہے، بلکہ دو الگ الگ واقعہ ہے) وقد أخرجہ کل من: صحیح البخاری/جزاء الصید 11 (1835)، واطلب 15 (5700)، صحیح مسلم/الحج 11 (1202)، سنن ابی داود/ الحج 36 (1835، 1836)، سنن ابن ماجہ/الحج 87 (3081)، مسند احمد (1/215، 221، 222، 236، 248، 249، 260، 283، 286، 292، 306، 315، 333، 346، 351، 372، 374)، سنن الدارمی/المناسک 20 (1820)، من غیر ہذا الطریق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح - بلفظ: ".... واحتجم وهو صائم " -، ابن ماجة (1682)

حدیث نمبر: 776
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، آپ روزے سے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 776]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 6507) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1682)

حدیث نمبر: 777
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " احْتَجَمَ فِيمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَجَابِرٍ، وأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَمْ يَرَوْا بِالْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيِّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے وقت میں پچھنا لگوایا جس میں آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، آپ احرام باندھے ہوئے تھے اور روزے کی حالت میں تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری، جابر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ صائم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، اور شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 777]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 6495) (منکر) (اس لفظ کے ساتھ منکر ہے، صحیح یہ ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حالت احرام میں سینگی لگوائی تو صوم سے نہیں تھے کما تقدم اور حالت صیام میں سینگی لگانے کا واقعہ الگ ہے)»

قال الشيخ الألباني: منكر بهذا اللفظ، ابن ماجة (1682)

62. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْوِصَالِ لِلصَّائِمِ
62. باب: افطار کیے بغیر مسلسل روزہ رکھنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 778
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، وَخَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُوَاصِلُوا "، قَالُوا: فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنِّي لَسْتُ كَأَحَدِكُمْ، إِنَّ رَبِّي يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِي ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَبَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا الْوِصَالَ فِي الصِّيَامِ، وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ كَانَ يُوَاصِلُ الْأَيَّامَ وَلَا يُفْطِرُ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صوم وصال ۱؎ مت رکھو، لوگوں نے عرض کیا: آپ تو رکھتے ہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، ابوہریرہ، عائشہ، ابن عمر، جابر، ابو سعید خدری، اور بشیر بن خصاصیہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ بغیر افطار کیے لگاتار روزے رکھنے کو مکروہ کہتے ہیں،
۴- عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ وہ کئی دنوں کو ملا لیتے تھے (درمیان میں) افطار نہیں کرتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 778]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1215) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

63. باب مَا جَاءَ فِي الْجُنُبِ يُدْرِكُهُ الْفَجْرُ وَهُوَ يُرِيدُ الصَّوْمَ
63. باب: جنبی کو فجر پا لے اور وہ روزہ رکھنا چاہتا ہو تو کیا حکم ہے۔
حدیث نمبر: 779
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، وَأُمُّ سَلَمَةَ زَوْجَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُدْرِكُهُ الْفَجْرُ وَهُوَ جُنُبٌ مِنْ أَهْلِهِ، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فَيَصُومُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنَ التَّابِعِينَ: إِذَا أَصْبَحَ جُنُبًا يَقْضِي ذَلِكَ الْيَوْمَ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
ام المؤمنین عائشہ اور ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر پا لیتی اور اپنی بیویوں سے صحبت کی وجہ سے حالت جنابت میں ہوتے پھر آپ غسل فرماتے اور روزہ رکھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں ـ:
۱- عائشہ اور ام سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے اور تابعین کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جب کوئی حالت جنابت میں صبح کرے تو وہ اس دن کی قضاء کرے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 779]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصوم 22 (1926)، صحیح مسلم/الصیام 13 (1109)، سنن ابی داود/ الصیام 36 (2388)، (تحفة الأشراف: 17696)، موطا امام مالک/الصیام 4 (12)، مسند احمد (6/38، وسنن الدارمی/الصوم 22 (1766) من غیر ہذا الطریق (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1703)

64. باب مَا جَاءَ فِي إِجَابَةِ الصَّائِمِ الدَّعْوَةَ
64. باب: روزہ دار دعوت قبول کرے اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 780
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَاءٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى طَعَامٍ فَلْيُجِبْ، فَإِنْ كَانَ صَائِمًا فَلْيُصَلِّ ". يَعْنِي الدُّعَاءَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت ملے تو اسے قبول کرے، اور اگر وہ روزہ سے ہو تو چاہیئے کہ دعا کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 780]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14433) (صحیح) وأخرجہ: کل من: صحیح مسلم/الصیام 28 (1150)، سنن ابی داود/ الصیام 75 (2460)، سنن ابن ماجہ/الصیام 47 (1750)، مسند احمد (2/242)، سنن الدارمی/الصیام 31 (1778)، من غیر ہذا الطریق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1750)

حدیث نمبر: 781
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ: إِنِّي صَائِمٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ فِي هَذَا الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے اور وہ روزہ سے ہو تو چاہیئے کہ وہ کہے میں روزہ سے ہوں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں ابوہریرہ سے مروی دونوں حدیثیں حسن صحیح ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 781]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 13671) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1750)


Previous    6    7    8    9    10    11    12    13    Next